السلام علیکم!
جناب عالی!
ہم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کا مفصل بیان (داڑھی کی شرعی حیثیت) سماعت فرمایا، ہم آپ سے کچھ حوالہ جات چاہتے ہیں۔
برائے مہربانی ان تمام چیزوں کا تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں، تاکہ ہمارے علاوہ دوسرے حضرات بھی اس تمام چیزوں کے احکام سے واقف ہو سکیں۔
جزاک اللہ!
جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
اللِّحْيَةُ شَعَرَ الخَدَّيْنِ والذقْنِ.
’’رخساروں اور ٹھوڑی کے بالوں کو ’ لحیہ ‘ کہتے ہیں۔‘‘
لہٰذا ٹھوڑی کے بال بھی داڑھی کا حصہ ہیں اس لیے پیمائش کرتے ہوئے ان بالوں کو بھی داڑھی میں شامل کیا جائے گا۔
فالتقدير: لو أخذتم نواحي لحية طولا وعرضا، وترکتم قدر المستحب وهو مقدار القبضة، وهي الحد المتوسط بين الطرفين امذمومين من إرسالها مطلقاً، ومن حلقها وقصهاعلی وجه استئصالها.
’’(حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو جو داڑھی کاٹنے کا حکم دیا تھا) اس میں حکماً یہ ارشاد ہے کہ اگر تم داڑھی کو طولاً عرضاً اور اس قدر مستحب چھوڑ دو (تو بہتر ہے) اور وہ مستحب قبضہ کی مقدار ہے اور یہ مطلقاً داڑھی چھوڑنے یا منڈوانے اور جڑ سے کاٹنے کی افراط اور تفریط والی مذموم جانبوں میں حد متوسط ہے۔‘‘
ملا علي قاري، شرح مسند أبي حنيفة: 423، 424، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
شریعت میں واجب کے لئے حکم کا پایا جانا ضروری ہے۔ لہٰذا داڑھی کی مقدار کو قبضہ بھر واجب ثابت کرنے کے لئے کوئی حکمِ شرعی موجود نہیں ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں۔
أَنَّ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم کَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا.
’’نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک لمبائی اور چوڑائی میں کم کرتے تھے۔‘‘
ترمذي، السنن، 5: 94، رقم: 2762، بيروت: دار احياء التراث العربي
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔
يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ.
’’وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘
حضرت سماک بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں:
کَانَ عَلَيً رضی الله عنه يَأخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَهُ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے کے قریب سے داڑھی مبارک کاٹتے تھے۔‘‘
ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25480، مکتبة الرشد الرياض
حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔‘‘
ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25481
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الصَّلَةُ الْمَکْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرض نماز لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے نیک ہو یا بد اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو۔‘‘
أبو داؤد، السنن، 1: 162، رقم: 594، دارالفکر
ایک اور روایت میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْکُمْ مَعَ کُلِّ أَمِيرٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَالصَّلَةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْکُمْ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ وَالصَّلَةُ وَاجِبَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.
’’سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر جہاد فرض ہے ہر امیر کے ساتھ، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے نیک ہو خواہ برا گو گناہ کبیرہ کرے۔‘‘
امام علاءالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی حنفی فرماتے ہیں:
کل عاقل مسلم حتی تجوز إمامة العبد والأعرابي والأعمی وولد الزنا والفاسق وهذا قول العامة.
’’ہر عقلمند مسلمان کی امامت صحیح ہے۔ یہاں تک کہ غلام، دیہاتی، نابینا، حرامی اور فاسق کی امامت بھی عام علماء کے نزدیک صحیح ہے۔‘‘
کأساني، بدائع الصنائع، 1: 156، بيروت: دار الکتاب العربي
أَنَّهُ دَخَلَ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ إِنَّکَ إِمَامُ عَامَّةٍ وَنَزَلَ بِکَ مَا نَرَی وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلَةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ وَإِذَا أَسَائُوا فَاجْتَنِبْ إِسَائَتَهُمْ.
’’وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جب کہ وہ محصور تھے اور کہا کہ آپ مسلمانوں کے متفقہ امام ہیں اور فتنہ باز ہمیں نماز پڑھاتا ہے اور ہمیں یہ ناپسند ہے۔ فرمایا کہ لوگوں کے اعمال میں سے نماز بہترین چیز ہے اور لوگ جب نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیک کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے الگ رہو۔‘‘
بخاري، الصحيح، 1: 246، رقم: 663
ما طلب الشرع فعله طلباً جازماً بدليل ظني فيه شبهة.
’’ایسا حکم جس کے کرنے کا شرع نے لازمی مطالبہ کیا ہو اور دلیل ظنی سے ثابت ہو اس طرح کہ اس میں کوئی شبہ رہ جائے۔‘‘
اور غیر احناف کے ہاں واجب کی تعریف یہ ہے:
ما طلب الشرع فعله طلباً جازماً بدليل قطعي أو ظني.
’’ایسا فعل جس کے کرنے کا شارع نے لازمی مطالبہ کیا ہو خواہ دلیل قطعی سے ثابت ہو یا دلیل ظنی سے۔‘‘
وهبه زحيلي، الفقه الإسلامي وأدلته، 1: 52، دمشق، شام: دار الفکر
لہٰذا مطلقاً داڑھی رکھنا سنتِ مؤکدہ ہے کیونکہ اسناد کے اعتبار سے روایات وجوب کے درجہ پر پوری نہیں اترتیں۔
أما اللحية فذکر محمد في الآثار عن الامام أن السنة أن يقطع مازاد علی قبضة يده.
’’امام محمد رحمہ اﷲ نے کتاب الاثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ قبضہ سے زائد داڑھی کاٹنا سنت ہے۔‘‘
الطحطاوي، حاشية علی مراقي الفلاح، 1: 342، مصر: المکتبة الکبری الأميرية ببولاق
امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد اور علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
وما وراء ذالک يجب هکذا عن رسول اﷲ أنه کان يأخذ من اللحية من طولها وعرضها.
’’قبضہ بھر سے زائد داڑھی کٹوانا واجب ہے، یونہی رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک کو لمبائی وچوڑائی سے کم کیا کرتے تھے۔‘‘
فقہاء کرام مزید فرماتے ہیں:
بقدر المسنون وهو القبضة
’’داڑھی میں قدر مسنون قبضہ ہے۔‘‘
جمعہ کے دن ایک مطلوب سنت مونچھیں کٹوانا ہے یہاں تک کہ ہونٹ کی سرخی ظاہر ہو جائے اس کا مطلب ہے کہ کٹوانے میں مبالغہ کرے یہاں تک کہ بال غائب اور نچلی سطح ظاہر ہو جائے مگر پوری مونچھوں کو اس طرح کٹوانا ایسا ہی مکروہ ہے جیسے تمام مونچھوں کا مونڈھنا۔ بعض حصہ کو کٹوانا اور بعض کو مونڈھوانا جائز ہے۔ رہ گئی داڑھی اسے مونڈھنا اور مبالغہ کی حد تک کاٹنا مکروہ ہے ہاں قبضہ سے زائد ہو جائے تو معاملہ آسان ہے (کٹوالے)۔
امام ابو حنیفہ نے کہا مرد کا داڑھی منڈھوانا حرام اور قبضہ سے زائد نہ ہونا سنت ہے۔ قبضہ سے زائد کٹوائے، دائیں بائیں اطراف سے داڑھی کٹوانے میں حرج نہیں مونچھیں کاٹنے میں اتنا مبالغہ کرے کہ اوپر والے ہونٹ کے برابر ہو جائیں۔
داڑھی منڈھوانا حرام اور مونچھیں کٹوانا سنت ہے کاٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ ساری مونچھیں کاٹے بلکہ اوپر والے ہونٹ سے لٹکتے بال کاٹے تاکہ ہونٹ کا کنارہ ظاہر ہو جائے اس سے زیادہ کاٹنا مکروہ ہے۔
داڑھی مونڈھنا حرام، ہاں قبضہ سے زائد کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے رکھنے میں۔
عبد الرحمٰن الجزيري، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 2: 45، مصر: المکتبة التجارية الکبری
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ، قَالَ: رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم انْهَکُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَی.
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مونچھیں پست کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ، قَالَ: رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَی خَالِفُوا الْمَجُوسَ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آتش پرستوں کی مخالفت کرو، مونچھیں ترشواؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔‘‘‘
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنه قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَقُصُّ أَوْ يَأْخُذُ مِنْ شَارِبِهِ وَکَانَ إِبْرَهِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمٰنِ يَفْعَلُهُ.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مونچھیں مبارک کتروایا کرتے تھے اور اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ مَنْ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ شَارِبِهِ فَلَيْسَ مِنَّا.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اپنی مونچھوں کا کچھ حصہ (جو ہونٹ سے زائد ہو) نہ ترشوائے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث کے بارے میں شارحین حدیث کی وضاحتیں ذیل میں دی گئی ہیں۔ علامہ بدر الدین ابو محمد محمودبن العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں:
’’مونچھیں کاٹنا سنت ہے قص الشارب کا لفظ قصصت الشعر سے ماخوذ ہے میں نے بال کٹوائے طیر مقصوص الجناح (جس پرندے کے پر کٹے ہوں)۔ اہل مدینہ میں سے بہت سے بزرگوں کے نزدیک مونچھیں منڈوانے سے کٹوانا بہتر ہے۔ مثلاً سالم، سعید بن مسیب، عروہ بن الزبیر، جعفر بن الزبیر، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، ابوبکر بن عبد الرحمن بن الحارث، ان سب کے نزدیک مونچھیں کاٹنا مستحب ہے مونڈھنے کی نسبت یہی قول ہے۔ حمید بن ہلال، حسن بصری، محمد بن سیرین، عطاء بن ابی رباح اورامام مالک کا بھی یہی مذہب ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اﷲ نے فرمایا کثیر تعداد میں سلف نے مونچھیں مونڈھنے سے منع فرمایا ہے یہی امام مالک کا مذہب ہے ان کے نزدیک یہ مثلہ ہے۔ امام مالک مونچھیں مونڈھنے والے کو سزا کا حکم دیتے تھے اور ہونٹ سے اوپر بال کاٹنے کو مکروہ سمجھتے تھے مستحب یہ ہے کہ اوپر سے اتنی مونچھیں کاٹی جائیں جس سے ہونٹ نظر آئیں۔ اہل کوفہ، مکحول، محمد بن عجلان، نافع مولیٰ ابن عمر، ابو حنیفہ، ابو یوسف ا ور امام محمد رحمھم اﷲ نے فرمایا مونچھیں کاٹنے سے افضل مونڈھنا ہے۔ ابن عمر، ابو سعید خدری، رافع بن خدیج، سلمہ بن الاکوع، جابر بن عبد اللہ، ابو اسید، عبد اللہ بن عمر کے نزدیک کاٹنے سے مونڈھنا افضل ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ خارجیوں کی علامت مونڈھنا ہے (سر کے بال ہوں یا مونچھوں کے)۔‘‘
عيني، عمدة القاري، 22: 44، بيروت: دار حياء التراث العربي
علامہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں:
المراد به هنا قطع الشعر النابت علی الشفة العليا من غير استئصال.
’’اس سے مراد اوپر والے ہونٹ پر اگنے والے بال کاٹنا ہے، مونڈھنا مراد نہیں۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 10: 335، بيروت: دار المعرفة
امام نووی فرماتے ہیں:
أما حد مايقصه فالمختار أنه يقص حتی يبد و طرف الشفة ولا يحفه من أصله وأما روايات احفوا الشوارب فمعنا ها احفوا ماطال علی الشفتين.
’’مونچھیں کاٹنے کی مذہب مختار میں حد یہ ہے کہ ہونٹ ظاہر ہو جائیں، کلی طور پر مونڈھنا نہیں اور جن روایات میں احفوا الشوارب مونچھیں کاٹو، اس کا مطلب ہے وہ بال کاٹو جو ہونٹوں پر لمبے لمبے موجود ہیں۔‘‘
النووي، شرح صحيح مسلم، 3: 149، بيروت: دار احياء التراث العربي
امام نووی مزید لکھتے ہیں:
فذهب کثير من السلف إلی استئصاله وحلقه بظاهر قوله صلیٰ الله عليه وآله وسلم احفوا وانهکوا وهو قول الکوفيين و ذهب کثير منهم إلی منع الحلق والاستئصال وقاله مالک وکان يری حلقه مثلة ويأمر بأدب فاعله وکان يکره أن يؤخذ من أعلاه ويذهب هؤلاء إلی أن الإحفاء والجز والقص بمعنی واحد، وهو الأخذ منه حتی يبد و طرف الشفة وذهب بعض العلماء إلی التخيير بين الأمرين والمختار ترک اللحية علی حالها وأن لا يتعرض لها بتقصيرشئی أصلاً والمختار في الشارب ترک الاستئصال والا قتصار علی مايبدو به طرف الشفة.
’’بہت سے بزرگ اس طرف گئے ہیں کہ مونچھیں مونڈھی جائیں، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ظاہر قول سے استدلال کرتے ہوئے کہ مونچھیں کٹاؤ اور یہی قول ہے اہل کوفہ کا اور بہت سے علماء مونچھیں نہ کاٹنے اور نہ مونڈھنے کی طرف گئے ہیں اور یہی قول ہے امام مالک رحمہ اﷲ کا، وہ مونچھیں مونڈھنے کو مثلہ قرار دیتے تھے اور مونڈھنے والے کو سزا کا حکم دیتے اور اوپر سے مونچھیں مونڈھنے کاٹنے کو مکروہ سمجھتے تھے ان کے نزدیک اِحفاء، جَزّ اور قصّ کا ایک ہی مطلب ہے کہ مونچھیں اتنی کاٹی جائیں جس سے ہونٹ ظاہر ہو جائیں بعض علماء کے نزدیک بندے کو دونوں میں اختیار ہے۔‘‘
النووي، شرح صحيح مسلم، 3: 151
لہٰذا رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مونچھیں پست کیا کرتے تھے، مونڈھتے نہیں تھے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔