جواب:
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی "محرم سے نکاح پر حد نہیں ہے" سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے گا بلکہ ان کے نزدیک تعزیر لگائی جائے گی جو حد سے بھی شدید ہو سکتی ہے۔ کتب فقہ میں درج ہے:
مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور حنفیوں میں سے قاضی ابو یوسف اور امام محمد رضی اللہ عنہم نے فرمایا: جس آدمی نے عقد نکاح کیا کسی ایسی عورت سے جس سے اس کا نکاح جائز نہیں تھا کہ وہ اس کے محارم میں سے تھی جیسے ماں، بہن یا کوئی اور جو نسباً یا رضاعاً حرام تھی۔ ان میں سے کسی سے بھی اس نے نکاح کیا اور وطی کی جبکہ اس کو حرام ہونے کا علم تھا اس پر حد زنا قائم کرنا لازم ہے کیونکہ یہ نکاح بے محل ہوا جس میں خود اس کے نزدیک بھی کوئی شک شبہ نہیں اور بچہ اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا (یعنی بچہ زانی کو دے دیا جائے گا)۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس پر حد لازم نہیں اگرچہ کہے کہ مجھے معلوم تھا کہ یہ عورت مجھ پر حرام ہے۔ ہاں اس پر حق مہر بھی لازم ہو گا اور اولاد بھی اس سے ملائی جائے گی اور اس کو شدید ترین سزا بطور تعزیر اور سیاسیاً دی جائے گی حد شرعی مقرر سمجھ کر نہیں۔
تو جب اس کو حکم شرعی معلوم نہیں تو اس پر حد نہیں، نہ سزائے تعزیر اور ترجیح جمہور کے قول کو ہی حاصل ہے۔
عبد الرحمن الجزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الاربعة، 5 : 98، دار الفکر، بيروت
درج ذیل کتب فقہ میں بھی کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔
علامه زين الدين ابن نجيم، البحر الرائق، 5 : 15، پاکستان چوک کراچی
علامه کاسانی حنفی، بدائع الصنائع، 7 : 35، پاکستان چوک کراچی
ابن عابدين شامی، رد المختار، 4 : 24، طبع کراچی
لہذا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حد نہیں ہے لیکن شدید سزا بطور تعزیر ہے لیکن فتوی ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کے قول پر ہی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔