سوال نمبر:2043
السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بہن کی شادی تقریبا دو مہینے پہلے ہوئی تھی پھر کچھ ہی ہفتوں بعد بہن کی طبیعت ساس کے انتہائی ظلم کے بعد خراب ہو گئی جسکی وجہ سے وہ ہسپتال میں داخل رہی پھر ہسپتال سے واپس ہم نے اسے اپنے گھر ہی رکھا واپس سسرال نہیں بھیجا ۔ اسکے شوہر کا فون آیا کہ تم واپس آ جاو میری بہن نے کہا کہ میں واپس آنے کے لئے تیار ہوں لیکن میرا مسئلہ حل کریں تاکہ آئندہ مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو اس پر اسکے شوہر نے کہا کہ بس تم واپس آو میں کچھ نہیں جانتا اور اگر تم نہیں آئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ اسی پر کافی دن تک بات ہوتی رہی لیکن مسئلہ حل کرنے کے لئے وہ لوگ تیار نہیں ہوئے اب آخری فون میں اسکے شوہر نے کچھ ایسی باتیں بولی ہیں جس سے طلاق سمجھ میں آ رہی ہے ۔ الفاظ یہ کہے ہیں
"اپنے گھر والوں کو بھائی کو سب کو بتا دو کہ میرے میاں نے مجھے علیحدہ کر دیا ٹھیک ہے اپنے ابو کو بھی فون کر کے بتا دو کہ میرے میاں نے مجھے علیحدہ کر دیا اب آنے کی ضرورت نہیں ہے [میرے ابو ملک سے باہر ہیں] اب آپ علیحدہ ہو چکی ہیں اب آپ مزید محمد علی کی بیوی نہیں ہیں میں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے"
کیا ان الفاظ کے کہنے سے طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں اور اگر واقع ہوئی ہے تو کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں کیا ان الفاظ کے بعد رجوع کا حق باقی ہے یا نہیں اور کیا اس صورت میں لڑکی عدت گزارے گی؟
برائے کرم ان سوالات کا فقہ حنفی کے مطابق جواب دیں
اللہ آپ کو بہترین جزا دے
- سائل: محمد عمرمقام: انڈیا
- تاریخ اشاعت: 27 اگست 2012ء
جواب:
فقہائے کرام فرماتے ہیں :
الکنايات لا يقع الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال.
"کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی"۔
1. برهان الدين علی المرغينانی، الهدايه شرح البدابة، 1 :
241، المکتبة الاسلام.
2. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1 :
374، دار الفکر، سن اشاعت 1411ه
معلوم ہوا کنایات الفاظ سے دو صورتوں میں طلاق واقع ہوتی ہے جب نیت ہو اور ماحول
ایسا ہو کہ جب یہ الفاظ بولے ہیں اس وقت ان سے مراد طلاق کے معنی سمجھ میں آئیں۔
لہذا ان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہو گئی ہے ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ لڑکی
آزاد ہے عدت کے بعد جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ دوبارہ پہلے خاوند کے ساتھ عدت میں
یا عدت کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن یاد رہے پہلے خاوند سے نکاح کرنے کی صورت میں
اس کے پاس زندگی میں صرف دو دفعہ طلاق دینے کا حق باقی رہ جائے گا جب بھی دو دفعہ
طلاق دی تو یہ طلاق مغلظہ ہو جائے گی پھر رجوع کا حق باقی نہیں رہے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔