سوال : گیارھویں شریف کی حقیقت اور اصل روح کیا ہے؟ کب اور کیوں شروع ہوئی؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں؟
جواب:
گیارہویں شریف پر تفصیلی بات کرنے سے پہلے چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لینا ضروری ہیں۔ اسلام کا عمومی مزاج یہ ہے کہ:
٭ ہر ایک کے لیے فائدہ ہر ممکن فائدہ ہو
٭ انسانیت کے محسنوں کو بھلا یا نہ جائے بلکہ بہتر انداز میں یاد رکھا جائے تاکہ آنے والوں کو ترغیب ہو
٭ انفرادی سے زیادہ اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے
٭ خیر خیر ہے جہاں بھی پائی جائے جب بھی پائی جائے، شر شر ہے جہاں بھی ہو جب بھی ہو اس کا زمان و مکان سے تعلق نہیں۔
٭ ہر ایک کے لیے ہر ممکن فائدہ اسی کے پیش نظر اسلام کا معاشی و معاشرتی، سیاسی ڈھانچہ مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے لیے تعلیم و تربیت، نیکی پھیلانا، برائی مٹانا اور ہر ایک کی بنیادی ضروریات مہیا کرنا، ضروری قرار پایا اس میں مسلم غیر مسلم کی تفریق نہیں، سب کی بھلائی پیش نظر ہے۔
٭ وہ لوگ جنہوں نے دوسروں کو اپنے علم، اپنے عمل، اپنے مال اور اپنی جان سے فائدہ پہنچایا وہ انسانیت کے محسن ہیں ان کو بھلانا احسان فراموشی ہے ان کا ذکر خیر رہتی دنیا تک رہنا چاہیے۔ اسی لیے قرآن کریم، احادیث طیبہ اور بائبل و تاریخ ایسی ہستیوں کے کارناموں کے ذکر سے پر ہیں۔ جن سے بے شمار عبرتیں و نصیحتیں حاصل کی جا سکتی ہیں اور کی جانی چاہئیں۔
٭ اسلام بالخصوص اور دنیا کا ہر اچھا قانون انفرادی بہبود کے مقابلہ میں اجتماعیت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ نماز ایک ادا کر رہا ہے یا پوری جماعت۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُo اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَo
الفاتحه، 1: 4-5
’’(اے اﷲ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔‘‘
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُo
ابراهيم، 14: 40-41
’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لے۔ اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے)‘‘
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقره، 2: 201
’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘
نماز جنازہ ایک میت کا ادا ہو رہا ہے مگر دعا یہ مانگی جا رہی ہے۔
’اللهم اغفر لحينا و ميتنا و شاهدنا و غائبنا وصغيرنا و کبيرنا و ذکرنا وأنثانا، أللهم من أحييته منا فأحيه علی الإسلام ومن توفيته منا فتوفه علی الايمان
حاکم، المستدرک، 1: 511، رقم: 1326
’’اے اﷲ ! بخش دے ہمارے زندہ کو اور ہمارے مرنے والے کو، ہمارے حاضر اور غیر حاضر کو ہمارے چھوٹے اور بڑے کو ہمارے مرد کو ہماری عورت کو۔ اے اﷲ ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے تو اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے وفات دے تو اسے ایمان پر وفات دے۔‘‘
جنازہ ایک کا مگر دعا ساری امت کے لیے۔ بت پرستی کفر ہے، مخلوق کی عبادت شرک ہے، حرام ہے، بد کاری، سود، ظلم، غضب، حق تلفی، جھوٹ حرام ہے، جوا، شراب، رشوت حرام ہے، جب بھی ہو، جہاں بھی ہو خنزیر، مردار، حرام ہے جب بھی ہو، جہاں بھی ہو جو بھی کھائے، بیچے، خریدے مسئلہ صرف گیارہویں شریف کا نہیں محفل میلاد محفل خواجہ، محفل عرس، محفل سوم، ساتا، دسواں، چہلم، برسی۔ ان سب میں یہی اصول کار فرما ہیں، جس کی یاد میں محفل منعقد ہو رہی ہے اس کے عقیدہ و عمل اس کی علمی، تدریسی، تبلیغی، فلاحی خدمات کا ذکر کیا جائے اس کے اخلاق و اطوار کا ذکر کیا جائے یہ ہماری طرف سے اپنے محسن کی احسان شناسی اور احساس تشکر کا اظہار، اظہار عقیدت اور اس کے کارناموں کے ذکر سے دوسروں کو نیکی کی ترغیب ہے ہم یہ بھی ظاہر کریں کہ ہم احسان فراموش نہیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ان محافل میں تلاوت قرآن کریم ہوتی، حمد و نعت منقبت پیش کی جاتی ہے۔ اولیاء اﷲ کی سیرت و فضائل کا ذکر ہوتا ہے یونہی پوری قوم کے لیے یہ تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن جاتا ہے کچھ سن سنا کر شریک محفل ہوتے ہیں کچھ سفر کر کے اپنی حاضری سے محفل کی رونق بڑھا کر شریک محفل ہوتے ہیں، کچھ صاحب ثروت آنے والے زائرین کے لیے کھانے اور مشروب کے ذریعہ شرکت کرتے ہیں کچھ انتظام و انصرام میں شامل ہو کر ثواب حاصل کرتے ہیں، کچھ صدقہ و خیرات کر کے، کچھ تلاوت قرآن کے ذریعے، کچھ ذکر و درود و سلام کے ذریعے، کچھ دورو نزدیک سے آنے والے زائرین کی خدمت کر کے اپنا حصہ ادا کرتے ہیں الغرض نیکی حاصل کرنے کا ایک وسیع و عریض میدان مہیا ہے جس میں ہر شخص بقدر استطاعت، نیکیوں، بھلائیوں اور صاحب مزار و صاحب محفل کے فیوض و برکات و تو جہات کی دولت سمیٹتا ہے مخلوق خدا کو یہاں آرام و سکون ملتا ہے، صاحب محفل کی عوام و خواص کی نظروں میں عزت و تکریم ہوتی ہے۔ حاجت مندوں کی اﷲ تعالیٰ حاجت براری فرماتا ہے گمراہوں کو ہدایت اور دھتکارے ہوؤں کو راحت ملتی ہے اس نیک کام کے لیے کوئی جانور لاتا ہے کوئی پکا پکایا لاتا ہے کوئی نقد مال پیش کرتا ہے تاکہ آنے والے زائرین کے لیے بہتر رہائش، بہتر خوراک اور پر سکون ماحول مہیا ہو۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لوگ موسم کے مطابق غلہ اور دودھ، کھانا وغیرہ پیش کرتے تھے، سرکار قبول فرماتے اور لانے والے کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے ایسی اشیاء خود بھی تناول فرماتے، حاضرین مجلس اور آنے والے زائرین میں بھی تقسیم فرماتے۔
قرآن و حدیث میں کسی کو کھانا کھلانے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے مسلمان کی شان میں فرمایا۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاo إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا
الدهر، 76: 8-9
’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اﷲ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے منکرین کی یہ خرابیاں بیان کیں:
كَلَّا بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَo وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِo
الفجر، 89: 17-18
’’یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتے۔ اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔‘‘
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَo وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُo فَكُّ رَقَبَةٍo أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍo يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍo أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍo
البلد 90: 11-16
’’وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہے۔ وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہے۔ یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)۔ قرابت دار یتیم کو۔ یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہے۔‘‘
ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ای الاسلام خیر؟ کونسا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا؛
تطعم الطعام و تقرأ السلام علی من عرفت ومن لم تعرف
بخاری، الصحیح، 1: 13، رقم: 12
تیرا کھانا کھلانا اور جس سے جان پہچان ہو اس پر اور جس سے جان پہچان نہیں اس پر سلام کہنا کوئی دانشمند آدمی کھانا کھلانے کی حکمت، فائدہ اور حسن کا انکار نہیں کر سکتا۔ گیارہویں، عرس اور چہلم وغیرہ کے موقع پر یہی کچھ ہوتا ہے پھر اس کے جواز میں کلام کیا ؟
قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالْأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ.
المائده، 5: 3
’’خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لیے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔‘‘
فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.
المائدة، 5: 3
’’پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بے شک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے ان جانوروں کا ذکر فرمایا جن کا گوشت حرام ہے۔ مردار، خون، سور کا گوشت، جس جانور کے ذبح میں غیر اﷲ کا نام بلند کیا جائے بعض تنگ نظر اور کم علم لوگوں نے اس سے خواہ مخواہ گیارہویں شریف اور تبرکات، مٹھائی، کھانے اور مشروب وغیرہ کو ما أهل به لغير اﷲ میں شامل کر کے حرام قرار دیدیا ہے خود پر ہی ظلم نہیں کیا بلکہ امت میں فتنہ، افتراق اور اسلام کو بدنام کیا اور مسلمانوں کو مشرک قرار دیا اور فرقہ واریت کو خوب خوب ہوادی پس مناسب ہے کہ ما أهل کی عہد نبوت سے آج تک جو تفسیر و تصریح کی گئی ہے اسے لغت، تفسیر اور حدیث و عقل کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں جس شخص نے قرآن کریم کو خدا خوفی اور حیاء کے ساتھ سمجھ کر پڑھا ہے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ حلال حرام جانوروں کے ذکر میں مٹھائی، حلوہ کھیر، فرنی پلاؤ، قورمہ، دودھ، شربت، پھل کہاں سے آ گئے ؟ یہاں صرف گوشت کی بات ہو رہی ہے مگر خدا نا ترسوں نے کھینچا تانی کر کے بات کہاں سے کہاں تک پہنچا دی؟
قرآن کریم میں جن جانوروں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا گیا ہے ان میں ایک وہ جانور بھی ہے جو حلال ہے مگر جس کو ذبح کرتے وقت کسی بت، انسان یا دیوتا وغیرہ کا نام لیا جائے اگر بوقت ذبح صرف اﷲ کا نام لیا جائے اور ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ہو، مسلمان سے کتابی نہ بنا ہو، نسلی ہو یا کسی اور مذہب سے ہٹ کر کتابی بنا ہو تو گوشت حلال ہے خواہ ذبح سے پہلے اور بعد میں اس پر کسی کا نام پکارا جائے حرمت کا تعلق صرف وقت ذبح سے ہے۔ ان آیات میں لفظ ما سے مراد صرف جانور ہیں کہ پہلے پیچھے جانوروں کا ہی ذکر ہے اس سے مٹھائی، دودھ، کھانے، کپڑے، روپیہ، پیسہ وغیرہ ہرگز مراد نہیں کہ ان کا ذبح سے کوئی تعلق نہیں۔ الحمدللہ ہر مسلمان حلال جانوروں کو اﷲ کے نام پر بسم اﷲ ﷲ اکبر کہہ کر ذبح کرتا ہے اس کے حلال ہونے میں شک وہی کرے گا جو پر لے درجہ کا جاہل، تنگ نظر اور سخت متعصب جھگڑالو ہے۔
اے ایمان والو !
لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
المائده 5: 87
’’(اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بے شک اﷲ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
حرام حلال کرنا اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منصب ہے کسی اور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی مرضی سے جسے چاہے حلال اور جسے چاہے حرام کرتا پھرے یہ اﷲ کے قانون سے بغاوت ہے۔
قدوۃ الواصلین، زبدۃ العارفین، سیدی و سندی، غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی قدس سرہ کے نام پر منعقد ہونے والی تقریب ہے جس میں آپ سرکار کے حوالہ سے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ولایت اولیاء کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ اﷲ پاک آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا فرمائے آپ کے علمی و عملی کارناموں سے امت آگاہ ہو، اس سے ایک طرف اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے اولیاء اﷲ سے انس پیدا ہوتا ہے اﷲ والوں کی صحبت میسر آتی ہے روحانیت، فیض اور ذہنی آسودگی ملتی ہے اﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے اﷲ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے نیکی کی ترویج اور برائی کے مٹانے میں مدد ملتی ہے۔ کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ اﷲ و رسول کی بزم ہوتی ہے جہاں اﷲ و رسول کا ذکر ہوتا ہے نذرانوں کی صورت میں کھانے پینے کی اشیاء آتی ہیں جو حاضرین، زائرین، بھوکے مسافر بے بسوں کے کام آتی ہیں دینے والوں کو ثواب اور کھانے والوں کو سیری و سیرابی ملتی ہے اس صدقہ سے زبانوں اور دلوں سے نکلتی دعاؤں، تلاوتوں، اذکار کا ثواب زائرین، ان کے آباؤ و امہات ان کے اساتذہ، مشائخ اور تمام مسلمانان عالم، زندہ مومنین اور بالخصوص اہل قبور و مزارات کو پہنچایا جاتا ہے ان دعاؤں کو سننے والا اﷲ تعالیٰ ہے اس کی بارگاہ سے یقین ہے کہ یہ پر خلوص دعائیں قبول ہونگی مشکلات حل ہونگی، خالی جھولیاں بھریں گی، خشک ہونٹوں پر تری آئے گی پریشاں دلوں کو سکون اور بہتی آنکھوں کو خنکی ملے گی، زخمی دلوں کو مرہم اور دھتکارے ہوؤں کو ٹھکانے ملیں گے۔ شرکا، محافل کو اطمینان قلب اور عالم اسلام کو ان دعائوں کا سننے والا سکون قلوب و اذہان عطا فرمائے گا۔
ہمارا آج کا المیہ علم و تحقیق کی کمی نہیں، عمل سے فرار ہے۔ ہم حقائق کو جانتے ہیں ان کی حکمتوں سے اچھی طرح سے واقف ہیں ان کے فوائد اور عملی زندگی میں ان کی ناگزیریت کے دل سے قائل ہیں مگر افسوس کہ علم و آگہی کی جس قدر فراوانی ہوئی ہے عمل سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے اسی لیے ہمارا معاشرہ ہزار ہا تدابیر کے باوجود دن بدن تیزی سے زوال کی طرف جا رہا ہے۔ آج ہم جن رسوم سے نالاں ہیں ان پر کبھی ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ یہ رسوم اتنی ہی غلط تھیں تو ہمارے اسلاف نے اس پر غور کیوں نہ کیا اور ان کو کیوں رواج دیا ؟ کیا وہ اپنی آنے والی نسلوں کے خیر خواہ نہ تھے؟ کیا کوئی شخص اپنی اولاد کی تباہی کو پسند کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ہوتا یہ ہے کہ مختلف نیک مقاصد کے حصول کے لیے مختلف ادوار میں مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ عرصہ تک وہ مقاصد حاصل ہوتے رہتے ہیں اور معاشرہ زندہ وخوشحال ہوتا ہے مگر مرور زمانہ کے ساتھ وہ مقاصد نظروں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں اور اصول، رسوم میں ڈھلتے جاتے ہیں نتیجہ یہ کہ اچھے نام بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں اولیاء اﷲ سے منسوب دن اور ساعتیں، ان کے نام پر منعقد ہونے والی تقریبات کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
اولیاء اﷲ کی اصطلاح قرآنی اصطلاح ہے ان کا ذکر خیر کرنا اﷲ تعالیٰ کی سنت اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک طریقہ ہے امت نے روز اول سے اس نام اور اس کے مصداق پاکیزہ نفوس کی ہمیشہ تعظیم و تکریم کی ہے اولیاء اﷲ اس دین کے شعائر ہیں ان سے منسوب ہر چیز اﷲ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہے یہ حضرات اﷲ تعالیٰ کے دین کے خادم اور مخلوق خدا کے خیر خواہ ہوتے ہیں ان کی صحبت سے مردہ دلوں کو حیات جاوید ملتی ہے ان کے پاس زخمی دلوں کو مرہم، پریشان حالوں کو سکون اور دنیا کی نظروں سے دھتکارے ہوؤں کو امان ملتی ہے یہ خالق و خلق دونوں کی نظر میں محبوب ہوتے ہیں چونکہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کثیر فضائل و محاسن بیان فرمائے ہیں۔ قرآن کریم میں ان کی تاریخ و واقعات، فضائل و محاسن بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا:
وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ
ابراهيم 14: 5
’’اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔‘‘
اﷲ کے دن تو سارے ہی ہیں سبھی اس کے پیدا کردہ ہیں پھر اﷲ کے دنوں کی یاد دہانی کا اس کے سوا کیا مفہوم ہے کہ لوگوں کو اﷲ والوں کا ذکر سناؤ اور بالخصوص ان دونوں کا جو اﷲ والوں سے منسوب ہیں تاکہ اولاً ان کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے جنہوں نے عمر بھر اﷲ تعالیٰ کا ذکر بلند کیے رکھا اﷲ تعالیٰ کا ان سے وعدہ ہے۔
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ.
البقره 2: 152
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
گیارہویں شریف کا عمل ایک ولی کامل حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے یوم وفات 11 ربیع الثانی کی نسبت سے کچھ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایسا مقبول ہوا کہ ہر مہینہ کی گیارہ تاریخ کو لوگ آپ کی یاد میں محفلیں سجایا کرتے ہیں۔ گیارہویں شریف چالیسواں سالانہ عرس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اﷲ والوں کا ذکر خیر ہو، اﷲ تعالیٰ کا ذکر، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام اور سرکار کی سیرۃ طیبہ اور قرآن و سنت کے جس چشمہ صافی سے ان بزرگوں نے اپنے آ پ کو اور پھر ایک جہان کو سیراب کیا ہے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے اور ان کو عبادت خداوندی کی رغبت دلائی جائے۔ محافل میلاد، محافل اعراس، سوم چالیسواں، یوم پاکستان، یوم اقبال، یوم قائد اعظم، صحابہ کرام و اہل بیت کے ایام، مدارس، دار العلوموں، کالجوں اور جامعات کی سالانہ پچیس سالہ، پچاس سالہ، سو سالہ تقریبات، تبلیغی و تربیتی اجتماعات، کانفرنسز، سیمینارز۔ یہ تمام سرگرمیاں اسی مقصد کے لیے تو ہوتی ہیں کہ لوگوں تک اپنے بزرگوں کے مقام و مرتبہ، علمیت، جد و جہد، تعلیم و تزکیہ، خدمت خلق، اعلیٰ اخلاق و کردار کے کارنامے پہنچائے جائیں جس سے ایک طرف ان محسنین کا ذکر خیر ہوتا رہے۔ دوسری طرف آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتی رہیں اور بلندیوں، عظمتوں اور عزیمتوں کا سفر جاری و ساری رہے اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگاتی رہے۔ گیارہویں شریف ہو یا کسی اور بزرگ کا عرس یا دیگر مواقع ان پر معمول سے زیادہ قرآن خونی ہوتی ہے نعت و منقبت پڑھی و سنی جاتی ہے اﷲ تعالیٰ اور اس کے حبیب پاک کا ذکر خیر ہوتا ہے احکام شرع کی تعلیم و تبلیغ کا موقع ملتا ہے رزق حلال سے حاضرین کی تواضع کی جاتی ہے ماحول میں نیکی کا غلبہ اور بدی کی پسپائی ہوتی ہے صدقہ و خیرات کے ذریعے انفاق فی سبیل اﷲ پر عمل ہوتا ہے۔ شریک محفل لوگوں میں میل ملاقات ہوتی ہے محبت و اخوت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں غریبوں کو اچھا کھانا ملتا ہے۔ اب کچھ نیک لوگوں نے ان نیکیوں کو مزید وسعت دی ہے جو لائق تحسین ہے کہیں ترغیب کے طور پر حج و عمرہ کی قرعہ اندازی ہوتی ہے اور ان محافل کے ذریعے نادار لوگ بھی ان سعادتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں کہیں غریب بچیوں کی شادیاں کروائی جاتی ہیں ایک بڑے فرض کی ادائیگی اور والدین کی ایک بڑی پریشانی کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ بعض تقریبات پر نادار طلبہ کی تعلیمی ضروریات کا اہتمام کیا جاتا ہے بعض مقامات پر بے گھروں کو گھر تک مہیا کیے جاتے ہیں انہی ترغیبات کا نتیجہ ہے کہ اہل ثروت میں فیاضی، کرم اور سخاوت کے اوصاف پیدا ہوئے۔ اﷲ کے رستے میں یعنی مخلوق خدا کی فلاح و بہبود کے لیے کثرت سے مدارس، سکولز، کالجز، جامعات، ہسپتال، انڈسٹریل ہومز اور دیگر رفاہی ادارے قائم ہیں اور اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لیے وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اس قوم کے سچے خیر خواہ ہوں تو زکوۃ وعشر کی رقم سے عوام کی بنیادی ضرورتیں با عزت طور پر پوری ہو سکتی ہیں۔ آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اولیا ء اﷲ کے مزارات پر بندگان خدا کو بغیر کسی مذہبی و نسلی امتیاز کے مفت کھانا ملتا ہے اور ہر وقت ملتا ہے ہر ایک کو ملتا ہے ضرورت مندوں کا پیٹ بھرتا ہے اور کھلانے والے اجر وثواب کے مستحق بنتے ہیں مرحوم عزیزوں، بزرگوں کو اس تمام نیک کام کا اجر و ثواب ملتا رہتا ہے۔ جہاں کام ہوتا ہے وہاں کمی، کوتاہی اور غلطی بھی ہو سکتی ہے اس لیے ہر کام کتنا ہی مفید اور اچھا کیوں نہ ہو اصطلاح طلب رہتا ہے۔ خوب سے خوب ترکا سلسلہ رکتا نہیں۔
گیارہویں شریف کے اسباب و مقاصد اور طریقہ کار ہم نے بیان کر دئیے ہیں مگر فکری اور قدرتی امر ہے کہ وقت کے ساتھ اچھے کاموں میں بھی نقائص ہو جاتے ہیں یہی حالت گیارہویں شریف کی ہے۔ ان تقریبات میں چند خامیاں اکثر نظر آتی ہیں جن کا تدارک علماء، واعظین، مرشدین اور منتظمین کا ذمہ ہے۔ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر بلکہ لڑ جھگڑ کر زبردستی اور گھٹیا طریقوں سے ان تقریبات کے لیے چندہ کرنا لاؤڈ سپیکر پر سارا سارا دن چندوں کی اپیلیں کرنا اسلام اور تصوف و ولایت کو بدنام کرنا ہے۔ ایک آدھ مرتبہ محض اطلاع کے لیے اعلان کرنا معیوب نہیں بعض لوگ جس طرح مسلسل و متواتر کئی کئی دن تک سپیکر پر چندہ مانگتے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور مختلف حربے استعمال کرتے ہیں وہ باعث شرم ہیں اس کے ذمہ دار امام، خطیب اور مسجد کی انتظامیہ ہے اس رسم قبیح کو ختم ہونا چاہیے نعت و منقبت پڑھنا ایک پاکیزہ اور خوشگوار فرض ہے مگر اس کے مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے کہ اسے احتیاط ووقار کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اولاً نعت خواں غیر شرعی، غیر معیاری اور ادب و احترام سے عاری کلام سے پرہیز کریں۔ ثانیاً مقررین و نعت خواں حضرات نماز با جماعت کی پابندی کریں اور مسلمانوں کی سی شکل و صورت بنائیں اور بصورت دیگر انہیں مائیک پر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ثالثاً وہ اختتام مجلس تک شامل محفل رہیں مختلف بہانوں سے کھسکنے کی کوشش نہ کریں رابعاً معیاری کلام کے لیے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور بعد والے با علم و با عمل علماء و کاملین کا کلام پیش کریں۔
گیارہویں شریف اور اس طرح کی دیگر تقاریب میں کھلائے جانے والے کھانے کو انفاق فی سبیل اﷲ سمجھ کر وسعت دیں لوگوں کے پاس بے حساب مال ہے۔ ختم شریف کے لیے عمدہ کھانے، مستحقین کے لیے کپڑے اور نقدی، بیماریوں اور ذہنی مریضوں کے لیے کھانے، پھل اور دوائیاں، بیروزگاروں کے لیے زکوۃ، خیرات، چرمہائے قربانی، فطرانہ اور دیگر عطیات سے فنڈ مقرر کریں ان سے بیروزگاروں کو گزارا الاؤنس، غریب بچیوں کے لیے شادی کا بندوبست، نادار طلبہ کو تعلیمی وظائف معذوروں کے لیے کفالت خانے اور حادثات کے متاثرین کے لیے امداد کی جائے رفاہی و تعلیمی و تربیتی ادارے قائم کیے جائیں بیواؤں، یتیموں کے لیے کفالت عامہ کا بندوبست کیا جائے اور ان تمام نیک کاموں کا ثواب اپنے نیک بزرگوں کو پہنچایا جائے تاکہ ان کے احسانات کا کسی قدر حق ادا ہو۔ اور ان کے درجات مزید بلند اور ان کے فیوض و برکات مزید وسیع ہوں اور گناہ گاروں کو اس کا ثواب پہنچایا جائے تاکہ ان کی اخروی نجات ہو۔ ان نیکیوں کے صدقہ و وسیلہ سے پروردگار سے دعا ئیں مانگی جائیں کہ مسلمانوں پر پڑنے والی مصیبتوں کا خاتمہ ہو ان کی عزت و آزادی بحال ہو، ان کی کمزوریاں، محکومیاں اور محرومیاں ختم ہوں۔ ان کے باہمی اختلافات و تنازعات نابود ہوں وہ علم و عمل اور جہد مسلسل کے اسلحہ سے لیس ہو کر میدان مسابقت میں اتریں اور اپنا کھویا ہوا مقام و وقار دوبارہ حاصل کریں۔ یہ ہے میری نظر میں عرس گیارہویں شریف، چالیسویں اور برسی منانے کا صحیح طریقہ نیکی نیکی ہے جب بھی کی جائے جہاں بھی کی جائے یہ سوال بے معنی ہے کہ یہ کب شروع ہوئی ایصال ثواب کی مختلف طریقے اور نام ہیں ہر دور میں تھے ہر دور میں رہیں گے ان میں درپیش آنے والی خرابیوں کا ازالہ کریں ہر عمل میں خلوص و للہیت کا رنگ پیدا کریں خدا و رسول کی رضا اور مخلوق خدا کی بہتری پیش نظر رکھیں نیکی کی راہیں کثرت سے کھلی ہیں لیکن خلوص اور جذبہ و عمل کی ضرورت ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔