جواب:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک غزوہ میں گئے اس غزوہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اکثر اوقات جوتیاں پہنے رہا کرو کیونکہ جب تک کوئی آدمی اپنی جوتیاں پہنے رہتا ہے وہ سوار کے حکم میں رہتا ہے۔
صحيح مسلم، حديث نمبر : 970
اسی طرح بے شمار احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوتیاں پہننے کا حکم دیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک جوتی پہننے اور دوسری اتارنے سے بھی منع کیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ جس طرح ایک سوار چلنے میں مشقت سے محفوظ ہوتا ہے اسی طرح جوتے پہن کر چلنے والا بھی چلنے کی مشقت سے کسی حد تک محفوظ ہو جاتا ہے۔ جب ایک بندہ گلیوں سے ننگے پاؤں گزر کر مسجد جائے گا تو بازار کی گندگی مسجد لے کر جائے گا، جو اسلام کے اصول نظافت و طہارت کی صریح خلاف ورزی ہے۔
درج بالا حدیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو مشقت اور تکالیف سے محفوظ رہنے کا حکم دیتے تھے۔ حتی کہ صرف ایک جوتی پہننے سے بھی منع فرما دیا اور دونوں جوتیاں پہننے کا حکم دے دیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو دونوں جوتیاں اتارنے کا حکم دیتے جس سے چلنے میں مشقت اور تکلیف ہوتی ہے۔ جہاں تک زیب و زینت کی بات ہے تو پھر وہ تو ہمارے لباس میں بھی ہے۔ تو کیا ہم اپنے لباس اتار دیں اور ننگے بدن چلیں۔ ہر گز نہیں۔ زیب و زینت سے مراد یہ نہیں کہ جوتے ہی پاؤں میں نہ پہنیں جائیں۔ اس سے مراد ظاہری نمود و نمائش، دکھاوا، اور فضول خرچی ہے۔ ہمیں سادگی کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ننگے پاؤں چلنے میں کوئی مشقت و تکلیف نہیں پہنچتی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً گھر کے اندر، گھر کے لان وغیرہ میں، لیکن یہ ہر گز نہیں ہے کہ بازار، محلے، اور گلیوں میں انسان ننگے پاؤں پھرتا رہے یا مزارات پر ننگے پاؤں چل کر جانے کی منت مانے یہ ساری خرافات ہیں۔ ہمیں ان سے بچنا چاہیے۔
آپ نے جو حوالہ پیش کیا ہے ہم نے اس کو تلاش کیا ہے لیکن یہ مذکورہ کتاب میں موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسری کتب احادیث میں بھی نہیں ملا لیکن اس کے برعکس درج بالا احادیث ضرور موجود ہیں۔ جو اس چیز کی نفی کرتی ہیں اور جن میں جوتا پہننے کا حکم دیا گیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔