کیا سودی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:1593
کیا ایم کام کی پڑھائی جس کے اندر سودی بنکاری اور سودی کاروبار کرنے کے طریقے سیکھائے جاتے ہیں، پڑھنا جائز ہے؟ اور کیا ان بینکوں میں ملازمت کرنا جائز ہے جو سودی کاروبار کرتے ہیں؟

  • سائل: حماد احمدمقام: ملتان، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 02 اپریل 2012ء

زمرہ: سود  |  بینکاری

جواب:

پڑھائی کسی طرح کی بھی ہو پڑھنا جائز ہے، اچھی ہو یا بری اگر تو اچھی ہوئی تو دنیا وآخرت میں اس کے لئے فائدہ ہو گا اور اچھی پڑھائی علم نافع سے پاک اور حلال روزگار بھی میسر آئے گا۔

اگر پڑھائی بری ہوئی تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ انسان اس برائی سے بچ جائے گا اور دوسروں کو بھی اس برے کام سے روکے گا۔ مثلاً سود کے حوالے سے سٹڈی کریں گے تو پتا چلے گا کہ سود کسے کہتے ہیں اور پھر اس سے خود بھی بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے، اسی طرح ایسے بنکوں میں بھی ملازمت کرنا جائز ہے، لیکن دل میں اس چیز سے نفرت کرنی چاہیے اور بینک میں ملازمت کے ساتھ ساتھ متبادل روزگار بھی تلاش کرنا چاہیے، اگر متبادل ملازمت مل جائے تو پھر بینک سے نوکری چھوڑ دے ورنہ ملازمت جاری رکھیں اور دل میں اس سے نفرت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت پورا نظام معیشت یہود و نصاری کے ہاتھوں میں ہے اور پھر نظام تعلیم بھی اس حوالے سے ان کے کنٹرول میں ہے۔ جب تک اس میں مکمل طور پر اجتماعی طور پر تبدیلی نہ کی جائے اس وقت تک ہم مجبور ہیں تو مجبوری اور اضطراری کی حالت میں ایسی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے۔

فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا اثم عليه

"پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ فرمانی کرنیوالا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں"۔

اور پھر بینک میں ملازمت بھی کی جا سکتی ہے، لیکن دل میں نفرت ہونی چاہیے اور متبادل روزگار کی تلاش بھی نیک نیت سے جاری رکھنی چاہیے، اللہ تعالی تمام امت مسلمہ کو ہدایت نصیب فرمائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری