کیا غیر اسلامی ملک میں روزگار کے لیے جانے کی شرعی اجازت ہے؟


سوال نمبر:1416
السلام علیکم اگرکوئی مسلمان شخص کسی غیر ملک (یعنی غیراسلامی) ملک میں روزگار کیلئے جاتا ہے تو کیا شریعت کی رو سے اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ مہربانی فرما کر فقہی لحاظ سےتسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں، شکریہ

  • سائل: محمدارشدمقام: کراچی/پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 06 مارچ 2012ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل  |  خرید و فروخت (بیع و شراء، تجارت)  |  شرائط خریدو فروخت

جواب:

جی ہاں غیر اسلامی ملک میں روزگار کے لیے جانے کی شرعی اجازت ہے۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، ساری روئے زمین اللہ رب العزت کی ہے اور اس میں موجود خزانے اللہ تعالی نے اپنے انسانوں کے لیے پیدا کیے ہیں۔ غیر اسلامی ممالک کی دو اقسام ہیں۔

  1. دار الکفر
  2. دار الحرب

دار الکفر،

ایسے ممالک جہاں پر حکومت کفار و مشرکین اور غیر مسلموں کی ہو جیسے، امریکہ، یورپ کے سب ممالک، برطانیہ وغیرہ، ان ممالک میں اگرچہ حکومت غیر مسلموں کی ہے لیکن وہاں پر اسلامی تعلیمات پر چلنے کی اجازت ہے۔ ان ممالک میں مسلمان پوری آزادی کے ساتھ اللہ کی عبادت کر سکتے ہیں، آذان دے سکتے ہیں الغرض جمیع اسلامی تعلیمات پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایسے ممالک میں روزگار کے لیے جانے پر شرعی اجازت ہے کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔

دار الحرب،

ایسا ملک جہاں پر غیر مسلموں کی حکومت ہو ان کا نظام ہو اور وہاں پر اسلامی تعلیمات پر چلنے کی اجازت نہ ہو، آذان دینے، عبادت کرنے، مساجد کی تعمیر کرنے پر پابندی ہو۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف ظلم ہو رہا ہو، انہیں قتل کیا جا رہا ہو۔ یعنی مسلمانوں کے لئے مشکل ہو کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کر سکیں تو ایسے ممالک میں روزگار کے لئے جانا جائز نہیں ہے، فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ وہاں پر رہنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی ایسے ممالک سے ہجرت کر کے کسی ایسے ملک میں جائیں جہاں اسلام کی مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں۔ جب ان کو حکم ہے کہ وہ ہجرت کریں تو پھر دوسرے ملک سے دار الحرب جانا مسلمانوں کے لئے بدرجہ اولی ممنوع اور ناجائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری