جواب:
اس شخص سے بڑھ کر کوئی بد نصیب اور بدبخت نہیں ہے، یہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، جس دن سے اس نے اپنی بیٹوں کے ساتھ یہ فعل قبیح کیا، اس دن سے اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس کے نکاح سے فارغ ہو گئ تھی۔ حرمت مصاحرت ثابت ہو گئی ہے۔ اب شرعی طور پر وہ عورت اس کی بیوی ہی نہیں رہی، وہ پہلے بھی زنا کر رہا تھا اور اب بھی زنا ہی کر رہا ہے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے اور جس جس کو بھی اس کے فعل قبیح کا علم تھا یا ہے، سارے اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ اس کی بیوی، بیٹیاں، بہو اور وہ لوگ جن کو اس کے فعل قبیح کا علم ہے۔
اس شخص نے کونسا اپنی بیٹیوں اور بیوی کو باندھ کر یا قید میں رکھا ہوا ہے جو وہ کسی سے اس کی شکایت نہیں کر سکی۔ اب ان سب کو توبہ استغفار کرنی چاہیے۔ اس کی بیوی، بیٹیوں اور بہو اور دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ اس کے خلاف عدالت میں کیس چلایا جائیں۔ حدود آرڈینینس کا عدالت میں کیس چلایا جائے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ان سب کو اس کے خلاف یہ فعل قبیح ثابت کرنا ہو گا۔ لہذا اب اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے جائیں تاکہ اس کو عدالت میں پیش کر کے اس کو کیفر کردار تک پنہچایا جائے۔
زنا کی روک تھام تب ہی ممکن ہے جب حکومت، عدالتیں حدود نافذ کر گی۔ آج ہمارے ملک میں حدود نافذ نہیں کی جاتیں، جس کی وجہ سے ہر برائی سر عام ہوتی ہے۔ اگر عدالت حدود نافذ کرے، تو اس فعل قبیح سے معاشرہ چھٹکارا پا سکتا ہے۔ دوسرا اسلامی تعلیمات کی کمی کی وجہ سے اور اسلام سے دوری کی وجہ سے معاشرے میں برائی عام ہے۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔