جواب:
اپنی زندگی کا بیمہ یا انشورنس پالیسی ایک مفید چیز ہے جس کے ذریعے ایک انسان خاص رقم خاص مدت تک ادا کرتا ہے، اگر اس مدت تک زندہ رہے تو رقم کے ساتھ اضافی رقم بھی اسے ادا کی جاتی ہے اور اگر وہ پوری اقساط جمع کروانے سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو مقررہ رقم اس کے ورثاء کو مل جاتی ہے جس سے بہت سے معاشی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اگر بیمہ کمپنیاں صنعت یا غیر سودی تجارت میں یہ رقم لگائیں تو اس کے جواز میں کلام نہیں۔ مثلاً مضاربہ و مشارکہ وغیرہ میں۔
اگر بدقسمتی سے یہ پالیسی ہولڈرز سے ملنے والی رقوم سودی کاروبار میں لگائیں یا سود پر قرض دیں تو یہ عمل گو اشد حرام اور گناہ کبیرہ ہے مگر پالیسی ہولڈرز کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ لہذا ان کے لئے اصل معاہدہ کے مطابق کاروبار کرنا درست ہے، جب تک کوئی غیر شرعی شرط نہ لگائی جائے۔
ہماری تمام معیشت بلکہ دنیا بھر کی معیشت چند مستثنیات کے سوا سودی نظام پر استوار ہے، لہذا ہر شعبہ معاشیات میں شیطانی عناصر نے کسی نہ کسی صورت میں سود کو گھسیٹ رکھا ہے، اسٹیٹ لائف یا اس جیسی کمپنیاں بھی الا ماشاء اللہ اسی اصول پر لوگوں سے سرمایہ جمع کرتی اور آگے زیادہ شرح سود پر وہی روپیہ بڑے تاجروں یا صنعتکاروں کو دیتی ہیں۔ یہ دراصل مال کا وہی کام ہے جو بینک کر رہے ہیں، محض ایک تبدیلی کے ساتھ۔ اسلامی نظام معیشت جب تک کلی طور پر نافذ نہیں ہو جاتا ظلم کے کئی دروازے کھلے رہیں گے۔
بیمہ زندگی اصولی طور پر ایک نہایت مفید سکیم ہے، جس سے کوئی شہری اپنا اور اپنے بچوں کا معاشی تحفظ حاصل کر سکتا ہے۔ بس اتنی حد تک یہ درست ہے اور اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عام علمائے کرام نے اسے جائز رکھا ہے۔ چنانچہ مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے۔
(احکام شريعت، 202)
لہذا ہم بھی اسے جائز سمجھتے ہیں۔
براہ راست چونکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نظر نہیں آتی، لہذا جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔