انشورنس اور سود میں کیا فرق ہے؟


سوال نمبر:4244
انشورنس اور سود میں کیا فرق ہے؟ کیا انشورنس سود ہی کی ایک قسم ہے؟

  • سائل: فرقان مشتاقمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 20 مئی 2017ء

زمرہ: بیمہ و انشورنس

جواب:

سود اور انشورنس کے فرق کو واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے سود کی شرعی تعریف سمجھنا ضروری ہے۔ سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ لغت میں ربا کا معنی زیادتی‘ بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ربا کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

  1. ربا الفضل
  2. ربا النسیۂ
  • ربا الفضل: وہ زیادتی اور اضافہ ہے جو ہم جنس چیزوں کے دست بدست مبادلہ کرنے سے حاصل ہو۔ مثلاً ایک کلو جو کے بدلے میں اگر دو کلو جو لیا جائے
  • ربا النسئیہ: وہ قرض ہے جو اس شرط پر دیا جائے کہ مدیون (قرض لینے والا) دائن (قرض دینے والا) کو اصل رقم سے زائد واپس کرے

ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی نے سود کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

الربا الزيادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزيادة علی وجه دُون وجه.

اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں۔

أصفهاني، المفردات في غريب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان

ابو منصور محمد بن احمد الازہری، محمد بن مکرم بن منظور الافریقی اور محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی فرماتے ہیں:

الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض يُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي ليس بحرام أن يَهبه الانسان يَسْتَدعي به ما هو أکثر أو يُهدي الهدِيَّة لِيُهدَی له ما هو أکثر منها.

زیادتی دو قسم پر ہے، حرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔

  1. الأزهري، تهذیب اللغة، 15: 196، دار احياء التراث العربي بيروت
  2. ابن منظور، لسان العرب، 14: 304، دار صادر بيروت
  3. الزبيدي، تاج العروس، 38: 118، دار الهداية

بیمہ اور انشورنس جان و زندگی کا ہو یا جائیداد و کاروبار کا، اس میں اصلاً کوئی غلطی نہیں۔ یہ ایک فرد اور بیمہ کمپنی کے درمیان ایسا معاہدہ ہے جس میں فرد‘ بیمہ کمپنی کو بالاقساط رقوم جمع کروائے گا جو قرض نہیں ہوگی بلکہ اپنی معاونت کے وعدے پر دوسروں کی معاونت کے لیے دی جائے گی۔ بیمہ کمپنی فرد کو یہ رقم اس وقت ادا کرے گی جب پہلے سے طے شدہ ضرورت سامنے آجائے یا مقررہ مدت پوری ہوجائے۔ کمپنی افراد کی جمع شدہ رقوم کاروبار میں لگا کر سرمائے میں اضافہ کرتی ہے اور اس اضافے کی ایک شرح لوگوں کی رقوم میں شامل کرتی ہے۔ چونکہ اس پورے معاملے میں براہ راست سود، جوا وغیرہ نہیں اور بیمہ ہولڈر نے کمپنی سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جس میں کوئی شرعی قباحت ہو اس لیے ہمارے نزدیک یہ کاروبار اصلاً مفید اور شرعاً جائز ہے۔

عام طور پر بیمہ زندگی کرنے والی کمپنیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کمپنیاں پریمیئر کی رقوم سودی کاروبار میں لگا کر سرمایہ میں اضافہ کرتی ہیں اس لیے بیمہ ناجائز ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیمہ کمپنیاں اگر ان رقوم کو سودی کاروبار میں لگاتی ہیں تو اپنے ’حقِ استعمال‘ کی بنا پر لگاتی ہیں۔ اِس کی کوئی ذمہ داری بیمہ کرانے والوں پر عائد نہیں ہوتی۔ وہ زراعت، تجارت، صنعت وغیرہ جیسے جائز منصوبوں میں شرعی اصولوں کے مطابق بھی سرمایہ کاری کر سکتی ہیں اور سود، جوا اور فحاشی جیسے حرام شعبوں میں بھی۔ یہاں جائز و ناجائز کا معاملہ متعلقہ کمپنی پر ہے۔ بیمہ ہولڈرز براہ راست کسی ناجائز کام میں ملوث نہیں۔ بیمہ جس معاملے کے لیے کرایا جاتا ہے، وہ پیش آجائے تو جو کچھ ملتا ہے‘ معاہدے کی رو سے دوسروں کی جمع شدہ رقوم سے ملتا ہے۔ اس لیے بیمہ معاہدے کی رو سے ملنے والی رقوم کو سود قرار نہیں دیا جاسکتا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری