السلام علیکم!
میرا سوال یہ ہے کہ یہ جو ہم مزارات پر جا کر دعا کرتے ہیں کیا اس پر کوئی حدیث پاک
ہے کہ مزارات پر جانا اور اولیاء کو وسیلہ بنا کر دعا کرنا؟
میں نے کہیں سے سنا تھا کہ ولی کے فوت ہو جانے کے بعد ان سے مدد کی کوئی امید نہیں
رکھنی چاہیے۔
براہِ مہربانی مجھے اس کا ٹھوس جواب دیں۔
جواب:
اہل سنت کے نزدیک مسلمہ ہے کہ انبیاء کرام اور صلحاء امت کی حیات مبارکہ میں ان کو وسیلہ بنانا قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بعد از وفات ناجائز ہو؟
یہ غلط فہمی اور کم علمی ہے۔ اس لیے کہ شرک کسی خاص زمان یا مکان یا حیات و موت سے مختص نہیں، بلکہ جب بھی کوئی عمل شرک ہوگا تو وہ ہر صورت میں شرک ہوگا۔ یہ نہیں کہ زندہ کو سیلہ بنانا شرک نہیں اور مردہ کو وسیلہ بنانا شرک ہے۔ یہ غلط اور من گھڑت تصور ہے۔ جو تعلیمات اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا۔ مثلاً سجدہ کرنا، مخلوق میں کوئی زندہ ہو یا مردہ، اس کے لیے سجدہ کرنا شرک اور حرام ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ زندہ کے لیے جائز ہو اور بعد از وصال ناجائز، بلکہ دونوں صورتوں میں ناجائز ہے۔ اس لیے کہ یہ عبادت ہے اور عبادت غیراللہ کے لیے ناجائز اور شرک ہے۔
چونکہ وسیلہ شرک نہیں ہے بلکہ کسی نیک ہستی کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا ہے۔ لہذا زندہ شخص کو وسیلہ بنانا بھی جائز ہے اور نیک لوگوں کو بعد از وصال وسیلہ بنانا بھی جائز ہے۔
حافظ ابن کثیر تفسیر ابن کثیر میں اور امام قرطبی نے تفسیر قرطبی میں اور دیگر ائمہ نے یہ روایت کثرت سے بیان کی ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد ایک اعرابی قبر انور پر حاضر ہوا اور قبر انور کی مبارک مٹی سر پر ڈالتے ہوئے عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر جو قرآن نازل ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کی امت اگر گناہ کر بیٹھے تو آپ کے پاس حاضر ہوں، اللہ سے معافی مانگے اور رسول بھی ان کی مغفرت طلب کرے تو اللہ پاک کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔
(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 520)
زیادہ تفصیل کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب التوحید کا مطالعہ کریں، ان شاء اللہ تمام شبہات دور ہو جائیں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔