تزکیہ و احسان یا تصوف کے متعلق صحابہ کرام کی زندگی کے معمولات کیا تھے؟


سوال نمبر:110
تزکیہ و احسان یا تصوف کے قواعد و ضوابط کا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زندگی کے معمولات سے کہاں تک تعلق ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2011ء

زمرہ: تصوف

جواب:

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ احسان و تصوف کے جملہ اصول و ضوابط صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عملی زندگیوں میں بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔ صحابہ کرام براہ راست حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آداب طریقت سیکھتے تھے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خاص تربیت سے انہیں سلوک و طریقت کی تعلیم دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت صحابہ کرام کے لئے شیخ طریقت اور مرشد کامل کی تھی۔ تصوف و طریقت کا پہلا قدم نسبت ارادت کا قائم کرنا ہے۔ صحابہ کرام میں سے کوئی صحابی بھی ایسا نہ تھا جس نے با ضابطہ طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت نہ کی ہو۔

حضرت عتبہ بن عبد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سات بیعتیں کیں۔ پانچ بیعتیں اطاعت پر اور دو بیعتیں محبت پر۔‘‘

 کنز الاعمال، 1 : 326، رقم : 1524

طریقت کی راہ میں شیخ طریقت اور مرید کے درمیان کچھ آداب ہوتے ہیں جن کو بجا لائے بغیر کوئی مرید اپنے شیخ طریقت سے کسی قسم کا فیض حاصل نہیں کر سکتا۔

صحابہ کرام اپنے مرشد کامل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آدابِ محبت سے خوب واقف تھے۔ روایات میں ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کمال درجہ کے ادب اور تواضع و انکساری کا اظہار کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی اپنے چہروں اور آنکھوں پر مل لیتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن نیچے نہ گرنے دیتے بلکہ اپنے ہاتھوں اور چہرے پر مل لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھتے، حصول برکت کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دست بوسی اور قدم بوسی کرتے تھے۔ تصور شیخ باندھنا بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت تھا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ کائنات کی تمام نعمتوں سے محبوب تر عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت و محبت کو گردانتے تھے۔ انہیں ہر قسم کی عبادت اور ریاضت سے بڑھ کر اگر کوئی عمل عزیز تھا تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہنا تھا۔

عہد رسالت اور عہد صحابہ کرام میں ذکر و فکر کی مجالس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر لباس صوف پہننا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول تھا۔ اکثر صحابہ اون کا کھردرا لباس پہنتے تھے۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’بے شک میں نے ستر بدری صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صوف کا لباس پہنتے ہوئے دیکھا۔‘‘

شهاب الدين سهروردی، عوارف المعارف، 2 : 293

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول فاقہ کشی، قلت کلام، کثرت عبادت اور گریہ و زاری تھا۔ یہ تمام اوصاف ان کی زندگیوں میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام کثرت سے روزے رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے تھے، اس لیے صوفیاء کرام کے یہ تمام معمولات، عبادات و ریاضت و مجاہدات کے ذریعے روحانی مشقتیں کرنا، یہ سنت صحابہ کی اتباع کا نتیجہ تھا اس لیے یہ کہنا کہ ان کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے سرا سر غلط ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔