نکاح کی بنیادی شرط ایجاب و قبول ہے، جبری نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا
بالغ مرد و عورت کے درمیان گواہوں کی موجودگی میں حق مہر کے عوض ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہوتا ہے
کسی شخص کی منکوحہ عورت سے نکاح کرنا قطعی طور پر حرام ہے اور یہ حرمت آیات و روایت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے
بہتر یہ ہے کہ لڑکی کا محرم یا ولی اقرب ہی لڑکی کا وکیل بنے، تاہم بالغ لڑکی کسی بھی شخص کو اپنا وکیل بنا سکتی ہے
اگر لڑکے اور لڑکی کا نکاح پہلے طے ہوچکا تھا تو گواہوں کی موجودگی میں ان کے ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے
اگر لڑکا اور لڑکی الگ مجلس میں اور گواہان و نکاح خوان فون پر ہیں تو نکاح منعقد نہیں ہوتا
فریقِ ثانی کی ضروری جانچ پڑتال کے بعد اعتماد کی فضاء قائم ہونے پر تصویر بھیجنے میں کوئی مذائقہ نہیں
جب کسی عورت کو طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر فوت ہو جائے تو ایسی عورت کو عدت کے بعد نئے نکاح سے منع کرنا جائز نہیں ہے۔
نکاح کے وقت اگر ایسی باتوں کی شرط لگائی جائے کہ شریعت نے نہ ان کو لازم قرار دیا ہو اور نہ اُن سے منع کیا ہو تو ایسی شرطوں کو پورا کرنا واجب ہے
اگر زیور بطور حق مہر بیوی کو دیا جائے تو وہ بیوی کی ملکیت ہوتا ہے، اور بیوی کی مرضی کے خلاف یا رضامندی کے بغیر اُس کا شوہر یا سسرال واپس لے سکتے ہیں اور نہ بیچ سکتے ہیں۔
ممانی محرماتِ نکاح میں سے نہیں ہے۔ اس لیے ماموں کی وفات یا طلاق و علیحدگی کی صورت میں ممانی کے ساتھ نکاح جائز ہے
جس طرح کوئی شخص اپنی نسبی بھانجی سے نکاح نہیں کر سکتا عین اسی طرح اپنی رضاعی بھانجی سے بھی نکاح نہیں کر سکتا بلکہ رضاعی بھانجی سے نکاح کرنا بھی فعلِ حرام ہے۔ نسبی بھانجی، رضاعی ماں اور رضاعی بہن کا حرام ہونا تو قرآن مجید سے ثابت ہے
طلاق کے وقوع کیلئے عورت کا محلِ طلاق ہونا ضروری ہے، یعنی طلاق صرف اپنی منکوحہ کو یا کسی کی طرف سے طلاق کا اختیار ملنے کی صورت میں اُس کی منکوحہ کو دی جاسکتی ہے