کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وسیلہ جائز ہے؟


سوال نمبر:989
میرے ایک دوست نے وسیلہ کے متعلق سوال کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن میں‌ لکھا کہ ہم صرف زندہ لوگوں سے وسیلہ کر سکتے ہیں۔ ہم مردہ لوگوں سے وسیلہ نہیں کر سکتے، یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نہیں کیونکہ وہ اب نعوذ باللہ زندہ نہیں‌ ہیں۔ کیا آپ میری اس معاملہ میں‌ مدد کرسکتے ہیں؟

  • سائل: سید محمد نور اللہ حسینیمقام: حیدر آباد، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 18 مئی 2011ء

زمرہ: توسل

جواب:
آپ کا دوست غلط بیانی کر رہا ہے۔ آپ اس سے پوچھیں کہ کون سی آیت ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ صرف زندہ لوگوں کا وسیلہ جائز ہے اور مردوں کا وسیلہ جائز نہیں ہے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہے تو بتائے۔

قرآن مجید میں جن آیات سے وسیلہ جائز ہے ان میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ وفات کے بعد وسیلہ ناجائز ہے۔ بلکہ تمام علماء کرام جن آیات سے حیات ظاہری میں توسل اور وسیلہ ثابت کرتے ہیں ان سے بعض از وصال بھی وسیلہ جائز ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 64 کے تحت حیات ظاہر اور بعد از وصال دونوں طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو وسیلہ بنانا جائز اور مستحسن ہے۔

امام ابن کثیر جو کہ مستند اور معتبر امام گزرے ہیں اور وہ حدیث پاک اور قرآن مجید سے بھی استدلال کرتے تھے۔ وہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 64 کے تحت فرماتے ہیں۔

يرشد تعالیٰ العصاة والمذنبين اذا وقع منهم الخطاء والعصيان ان ياتوا الی الرسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيستغفروا الله عنده ويسالوه ان يغفرلهم فانهم اذا فعلوا ذالک تاب الله عليهم و رحمهم وغفرلهم.

(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ج : 1، ص : 520)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ عاصیوں اور خطا کاروں کو ارشاد فرما رہا ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ سرزد ہو جائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر (یعنی انکی قبر انور کے پاس) اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لیے دعا کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔

پھر فرماتے ہیں :

وقد ذکر جماعة منهم الشيخ ابو منصور الصباغ فی کتابه الشامل الحکاية المشهورة عن العتبی : قال کنت جالسا علی قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم فجاء اعرابی، فقال : السلام عليک يارسول الله سمعت الله يقول وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاo (النسآء ، 4 : 64) وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعابک الی ربي.

فرماتے ہیں ابو منصور صباغ اپنی کتاب الشامل میں حکایت مشہورہ ذکر کرتے ہیں کہ عتبی بیان کرتے ہیں کہ میں قبر انور کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا کہ السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے سنا کہ کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo) میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں۔ عتبی کا بیان ہے کہ پھر وہ اعرابی چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی میں نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فرمایا عتبی جاؤ اس اعرابی دیہاتی کو خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔

یہ واقعہ درج ذیل کتب میں مذکور ہے۔

بيهقی شعيب الايمان، ج : 3، ص : 495
ابن قدامه، المغنی، ج : 3، ص : 557
نووي، کتاب الاذکار، ج : 3، ص : 92
امام سبکی، شفا الستقام فی زيارة خير الانام، ص : 47. 46

اس کے علاوہ تمام مذاہب کے بڑے بڑے علما نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔

حدیث میں آتا ہے

قحط اهل المدينه قحطاً شديداً فشکوا الی عائشة، فقالت انظر قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم فاجعلوا منه کووا الی السماء حتی لا يکون بينه و بين السماء سقف ققال ففعلو فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الابل حتی تفتقت من الشهم فسمی عام الفتق.

(دارمی، السنن، ج : 1، ص : 43، الرقم : 93)

ایک مرتبہ مدینہ پاک میں سخت قحط پڑ گیا انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی آپ نے فرمایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے پاس جاؤ اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ روای کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا تھا جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہذا اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھا دیا گیا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان