کیا عورتوں کا مزاروں پر یا قبرستان میں جانا جائز ہے؟


سوال نمبر:864
کیا عورتوں کا مزاروں پر یا قبرستان میں جانا جائز ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرما دیں۔

  • سائل: سعید سوداگرمقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 02 اپریل 2011ء

زمرہ: زیارت قبور

جواب:

اسلام کے ابتدائی دور میں جبکہ عورتوں کی تربیت اسلامی خطوط پر نہیں ہوئی تھی وہ قبروں پر جا کر بین کرتیں، بال نوچتیں اور پیٹتی تھیں۔ لہٰذا منع کا حکم تھا لیکن اسلامی تعلیم و تربیت کے بعد ان کے قول و عمل میں صحیح انقلاب آیا، تو شارع علیہ السلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی زیارت قبور کی اجازت عنایت فرمائی۔ آج بھی کوئی عورت یا مرد دورِ جاہلیت کی طرح قبروں پر جا کر غیر شرعی حرکات کرے تو اس کے لئے ممانعت ہے، ورنہ اجازت ہے۔ آقائے کریم کا فرمان ہے۔

نهيتکم عن زيارت القبور فزوروها.

(مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب استيذان النبی صلی الله عليه وآله وسلم ربه قبر امه، 2 : 672، الرقم: 977)

’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعن زوارات القبور قبروں کی کثرت سے زیارت کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ زوارات مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ قبروں پر جانے والیوں پر ۔جس طرح نماز، روزہ، اور باقی عبادات میں مبالغہ آمیزی جائز نہیں، زیارت قبور میں بھی حد اعتدال کاحکم ہے۔ امام ترمذی نے اس کے متعلق فرمایا:

قد رای بعض اهل العلم ان هذا کان قبل ان يرخص النبی صلی الله عليه وآله وسلم فی زيارة القبور فلما رخص دخل رخصة الرجال والنساء وقال بعضهم انما کره زيارة القبور للنساء لقد صبرهن وکثرة جزعهن.

(ترمذی، السنن، کتاب الجنائز باب ماجاء فی کراهية زيارة القبور للنساء، 3: 372، الرقم: 1056)

’’بعض اہل علم کے خیال میں یہ (لعنت) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عورتوں کو زیارت قبور کی اجازت سے پہلے تھی۔ جب آپ نے رخصت دی تو آپ کی رخصت میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں اور بعض علماء نے کہا کہ عورتوں کی زیارت قبور اس لئے مکروہ ہے کہ ان میں صبر کم اور بے صبری زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

پس اگر بے صبری کا اظہار پیٹنا اور بال نوچنا یا گریبان پھاڑنا ہو او فتنہ و فساد کا خطرہ بھی نہ ہو تو عورت بھی اس طرح زیارت قبور کر سکتی ہے جس طرح مرد۔ اور یہ کہ یہ سنت دونوں کے لئے ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من زار قبر ابويه او احدهما فی کل جمعة غفرله وکتب برا.

(طبرانی، المعجم الاوسط، 6: 175، الرقم: 6114)

’’جو کوئی ہر جمعہ کو اپنے والدین یا ایک کی قبر کی زیارت کرے، اس کو بخش دیا جائے گا اور اسے نیک مسلمان لکھا جاتا ہے۔‘‘

(منهاج الفتاویٰ، مفتی عبدالقيوم خان هزاروی، 406-405)

دیگر احادیث مبارکہ

قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم کنت نهيتکم زيارة القبور اَلا فزورُوها فانها تُذهد في الدنيا وتذکر الاخرة.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں زیارت قبور سے منع کرتا تھا اب قبرستان جایا کرو اس لیے کہ یہ زیارت قبور دنیا میں تقویٰ اور آخرت کی یاد پیدا کرتی ہے۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہیں لیکن یہ احتیاط ضروری ہے کہ عورتوں کے ساتھ کوئی محرم ہو تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو اگر کسی بھی صورت میں فتنہ اور برائی کا اندیشہ ہو تو پھر گھر پر ہی ایصال ثواب کریں۔

عورتوں کے زیارت قبور پر درج ذیل احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں

عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِامْرَأة تَبْکِي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ : اتَّقِي اﷲَ وَاصْبِرِي. قَالَتْ : إِلَيکَ عَنِّي، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي، وَلَمْ تَعْرِفْه، فَقِيلَ لَها : إِنّه النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم ، فَأتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَه بَوَّابِينَ، فَقَالَتْ : لَمْ أعْرِفْکَ، فَقَالَ : إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَة الْأوْلٰي.

رَوَاه الْبُخَارِيُّ وَأحْمَدُ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب زيارة القبور، 1 / 431، الرقم : 1223، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 143، الرقم : 12480، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 101، الرقم : 20043.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس زار و قطار رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ سے ڈر اور صبر کر۔ اس عورت نے (شدتِ غم اور عدمِ تعارف کی وجہ سے) کہا : آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ آپ کو مجھ جیسی مصیبت نہیں پہنچی ہے۔ وہ خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی۔ کسی نے اُسے بتایا کہ یہ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ عورت (اپنی اس بات کی معذرت کرنے کیلئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اَقدس پر حاضر ہوئی۔ اس نے خدمت میں حاضری کی اجازت لینے کیلئے دربان نہیں پایا (تو باہر سے کھڑے ہوکر) عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اُس کی معذرت طلبی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صدمے کے موقع پر صبر ہی بہتر ہے۔‘‘ اِسے امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها، في رواية طويلة قَالَتْ : قُلْتُ : کَيفَ أَقُوْلُ لَهمْ يا رَسُوْلَ اﷲِ؟ (تَعْنِي فِي زِيارَة الْقُبُوْرِ) قَالَ : قُوْلِي : السَّلَامُ عَلٰي أَهلِ الدِّيارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ. رَوَاه مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبر والدعاء لأهلها، 2 / 669، الرقم : 974، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 91، الرقم : 2037، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 221، الرقم : 25897، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 576، الرقم : 6722.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں زیارتِ قبور کے وقت اہلِ قبور سے کس طرح مخاطب ہوا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یوں کہا کرو : اے مومنو اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اﷲ تعالیٰ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں پر رحم فرمائے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تمہیں ملنے والے ہیں۔‘‘

اِسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها أَنَّها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم (کُلَّمَا کَانَ لَيلَتُها مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم) يخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيلِ إِلَي الْبَقِيعِ، فَيقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأتَاکُمْ مَا تُوْعَدُوْنَ، غَدًا مُؤَجَّلُوْنَ، وَإنَّا، إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ. اللَّهمَّ اغْفِرْ لِأهلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ. رَوَاه مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، 2 / 669، الرقم : 974، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 / 93، الرقم : 2039، وأبو يعلي في المسند، 8 / 199، الرقم : 4758، وابن حبان في الصحيح، 7 / 444، الرقم : 3172.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی جب میرے یہاں باری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے آخری پہر بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے) فرماتے : تم پر سلامتی ہو، اے مومنوں کے گھر والو! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آ گئی کہ جسے کل ایک مدت بعد پاؤ گے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اﷲ! بقیع غرقد (اہلِ مدینہ کے قبرستان) والوں کی مغفرت فرما۔‘‘

اِسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِي مُلَيکَة رضي اﷲ عنهما قَالَ تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنهما بِحُبْشِيٍّ، قَالَ : فَحُمِلَ إِلٰي مَکَّة فَدُفِنَ فِيها فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَة أتَتْ قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أبِي بَکْرٍ فَقَالَتْ :

وَکُنَّا کَنَدْمَانَي جَذِيمَة حِقْبَة
مِنَ الدَّهرِ حَتّٰي قِيلَ لَنْ يتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا کَأنِّي وَمَالِکًا
لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيلَة مَعَا

ثُمَّ قَالَتْ : وَاﷲِ، لَوْ حَضَرْتُکَ مَا دُفِنْتَ إِلَّا حَيثُ مُتَّ وَلَوْ شَهدْتُکَ مَا زُرْتُکَ. رَوَاه التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في زيارة القبور للنساء، 3 / 371، الرقم : 1055، والحاکم في المستدرک، 3 / 541، الرقم : 6013، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 60.

حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اﷲ عنہما کا مقام حبشی میں انتقال ہوا تو آپ کو مکہ مکرمہ لا کر دفن کیا گیا، جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا آپ کی قبر پر تشریف لائیں تو (اشعار میں) فرمایا :

’’ہم جذیمہ بادشاہ کے دو مصاحبوں کی طرح عرصہ دراز تک اکٹھے رہے یہاں تک کہ کہا گیا ہرگز جدا نہیں ہوں گے، پس جب جدا ہو گئے تو گویا کہ مدت دراز تک اکٹھا رہنے کے باوجود میں اور مالک نے ایک رات بھی اکٹھے نہیں گزاری‘‘۔

پھر فرمایا : اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتی تو تمہیں وہیں دفن کراتی جہاں تمہارا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر ہوتی تو تمہاری زیارت نہ کرتی۔‘‘ اِسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِي مَلِيکَة رضي الله عنه أنَّ عَائِشَة رضي اﷲ عنها أقْبَلْتْ ذَاتَ يوْمٍ مِنَ الْمَقَابِرِ، فَقُلْتُ لَها : يا أمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مِنْ أينَ أقْبَلْتِ؟ قَالَتْ : مِنْ قَبْرِ أخِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أبِي بَکْرِ، فَقُلْتُ لَها : ألَيسَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم نَهي عَنْ زِيارَة الْقُبُوْرِ؟ قَالَتْ : نَعَمْ، کَانَ نَهي ثُمَّ أمَرَ بِزِيارِتِها. رَوَاه الْحَاکِمُ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 532، الرقم : 1392، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 131، الرقم : 7207، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 149، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 4 / 137.

’’حضرت عبد اﷲ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا قبرستان سے واپس تشریف لا رہی تھیں میں نے اُن سے عرض کیا : اُم المؤمنین! آپ کہاں سے تشریف لا رہی ہیں؟ فرمایا : اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر سے، میں نے عرض کیا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور سے منع نہیں فرمایا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا : ہاں! پہلے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں رخصت دے دی تھی۔‘‘ اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أبِيه قَالَ : کَانَتْ فَاطِمَة بِنْتِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم تَزُوْرُ قَبْرَ حَمْزَة کُلَّ جُمُعَة. رَوَاه عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 572، الرقم : 6713، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 131، الرقم : 7208.

’’امام جعفر الصادق اپنے والد گرامی امام محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تھیں۔‘‘ اِسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

عَنِ الأصْبَغِ بْنِ نَبَاتَة قَالَ : أنَّ فَاطِمَة بِنْتَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَتْ تَأتِي قَبْرَ حَمْزَة وَکَانَتْ قَدْ وَضَعَتْ عَلَيه عَلَمًا لَوْ تَعْرِفُه، وَذُکِرَ أنَّ قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَأبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانَ عَلَيهمُ النَّقْلُ يعْنِي حِجَارَة صِغَارًا. رَوَاه عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

أخرجه عبد الرزاق في المصنف،کتاب الجنائز، باب في زيارة القبور، 3 / 574، الرقم : 6717.

’’حضرت اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تھیں۔ آپ نے اُس کی پہچان کے لئے اُس کے اُوپر جھنڈا نصب کیا ہوا تھا۔ یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنھما کی قبور پر بھی چھوٹے پتھروں کی نشانیاں رکھی گئی تھیں۔‘‘

اِسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَينِ عَنْ أبِيه أنَّ فَاطِمَة بِنْتَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَتْ تَزُوْرُ قَبْرَ عَمِّها حَمْزَة کُلَّ جُمُعَة فَتُصَلِّي وَتَبْکِي عِنْدَه. رَوَاه الْحَاکِمُ وَالْبَيهقِيُّ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا الْحَدِيثُ رُوَاتُه عَنْ آخِرِهمْ ثِقَاتٌ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 533، الرقم : 1396، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 78، الرقم : 7000، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 137.

’’حضرت علی بن حسین اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیھا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تھیں آپ وہاں دعا کرتیں اور گریہ و زاری کرتی تھیں۔‘‘

اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اِس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔

عَنْ أبِي هرَيرَة رضي الله عنه أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرِ.

رَوَاه التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي اﷲ عنهما. وَقَالَ : هذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَأي بَعْضُ أهلِ الْعِلْمِ أنَّ هذَا کَانَ قَبْلَ أنْ يرَخِّصَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي زِيارَة الْقُبُوْرِ فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِه الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَقَالَ بَعْضُهمْ : إِنَّمَا کُرِه زِيارَة الْقُبُورِ لِلنِّسَاءِ لِقِلَّة صَبْرِهنَّ وَکَثْرَة جَزَعِهنَّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في کراهية زيارة القبور النساء، 3 / 371، الرقم : 1056، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 337، الرقم : 8430، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 569، الرقم : 6704، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 42، الرقم : 3591.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کثرت سے) قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔‘‘

اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا : اس باب میں حضرت ابنِ عباس اور حسان بن ثابت رضی اﷲ عنھما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ وہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

بعض علماء کے نزدیک یہ حکم اس وقت تھا جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور کی اجازت نہیں دی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت فرما دی تو یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں : عورتوں کی زیارتِ قبور کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ان میں صبر کم اور رونا دھونا زیادہ ہوتا ہے۔

شارحِ بخاری حافظ ابنِ حجر عسقلانی (م 852ھ) نے شرح صحیح بخاری میں حدیثِ ترمذی کا ذکر کر کے لکھا ہے :

قال القرطبي : هذا اللّعن إنّما هو للمکثرات من الزيارة لما تقتضيه الصفة من المبالغة، ولعلّ السبب ما يفضي إليه ذلک من تضييع حق الزوج، والتبرج، وما ينشأ منهن من الصّياح ونحو ذلک. فقد يقال : إذا أمن جميع ذلک فلا مانع من الإذن، لأن تذکر الموت يحتاج إليه الرّجال والنّساء.

أخرجه ابن حجر عسقلاني في فتح الباري، 3 / 149

’’قرطبی نے کہا یہ لعنت کثرت سے زیارت کرنے والیوں کے لئے ہے جیسا کہ صفت مبالغہ کا تقاضا ہے (یعنی زَوَّارات مبالغہ کا صیغہ ہے جس میں کثرت سے زیارت کرنے کا معنی پایا جاتا ہے) اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ (بار بار) قبروں پر جانے سے شوہر کے حق کا ضیاع، زینت کا اظہار اور بوقتِ زیارت چیخ و پکار اور اس طرح کے دیگر ناپسندیدہ اُمور کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ پس اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جب ان تمام ناپسندیدہ اُمور سے اجتناب ہو جائے تو پھر رخصت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مرد اور عورتیں دونوں موت کی یاد کی محتاج ہیں۔‘‘

اسی بات کو شارحِ ترمذی علامہ عبد الرحمان مبارکپوری (م 1353ھ) نے تحفۃ الاخوذی (4 : 136) میں نقل کیا ہے۔

تمام شارحینِ حدیث اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ حصولِ عبرت اور تذکیرِ آخرت کے لئے زیارتِ قبور میں عموم ہے یعنی جس طرح ممانعت عام تھی اسی طرح جب رخصت ملی تو وہ بھی عام ہے۔ البتہ عورتیں چونکہ بے صبر ہوتی ہیں اگر اپنے کسی قریبی عزیز کی قبر پر جاکر اس طرح نوحہ کریں جس سے شریعت نے منع کیا ہے یا قبرستان میں ان کا جانا باعثِ فتنہ اور بے پردگی و بے حیائی کا باعث ہو، محرم ساتھ نہ ہو یا ایسا اجتماع ہو جہاں اختلاطِ مرد و زن ہو تو اس صورت میں عورتوں کا زیارتِ قبور کے لئے جانا بلا شبہ ممنوع ہے۔ اور اگر محرم کے ساتھ باپردہ قبرستان جائے اور وہاں جاکر دعا کرے، تذکیرِ آخرت سامنے ہو تو پھر رخصت ہے۔ جمہور احناف کے نزدیک رخصتِ زیارت مرد و زن دونوں کے لئے ہے۔

1۔ علامہ ابنِ نجیم حنفی (926۔970ھ) لکھتے ہیں :

وقيل تحرم علي النساء، والأصح أن الرخصة ثابته لهما.

ابن نجيم، البحر الرائق، 2 / 210

’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیارتِ قبر عورتوں کے لئے حرام ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی اجازت مرد و زن دونوں کے لئے یکساں ہے۔‘‘

2۔ علامہ ابنِ عابدین شامی حنفی نے لکھا ہے :

أمّا علي الأصحّ من مذهبنا وهو قول الکرخي وغيره، من أن الرخصة في زيارة القبور ثابتة للرّجال والنّساء جميعًا، فلا إشکال.

ابن عابدين، رد المحتار علي الدر المختار، 2 / 626

’’احناف کے نزدیک صحیح قول امام کرخی وغیرہ کا ہے وہ یہ کہ زیارتِ قبور کی اجازت مردو و زن دونوں کے لئے ثابت ہے جس میں کوئی اشکال نہیں۔‘‘

3۔ علامہ شرنبلالی (م 1069ھ) لکھتے ہیں :

نُدِبَ زِيارَتُها لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ عَلَي الْأصَحِّ.

شرنبلالي، نور الإيضاح، فصل في زيارة القبور

’’صحیح روایت کے مطابق زیارتِ قبور مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پر مستحب ہے۔‘‘

4۔ علامہ طحطاوی (م 1231ھ) مراقی الفلاح کی شرح میں لکھتے ہیں :

وفي السراج : وأمّا النّساء إذا أردن زيارة القبور إن کان ذالک لتجديد الحزن، والبکاء، والندب کما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه يحمل الحديث الصحيح ’’لعن اﷲ زائرات القبور‘‘. وإن کان للاعتبار، والتّرحّم، والتّبرّک بزيارة قبور الصّالحين من غير ما يخالف الشّرع فلا بأس به، إذا کنّ عجائز. وکره ذالک للشّابات، کحضورهن في المساجد للجماعات. وحاصله أن محل الرخص لهن إذا کانت الزيارة علي وجه ليس فيه فتنة. والأصحّ أن الرّخصة ثابتة للرّجال والنّساء لأن السّيدة فاطمة رضي اﷲ عنها کانت تزور قبر حمزة کل جمعة وکانت عائشة رضي اﷲ عنها تزور قبر أخيها عبد الرحمٰن بمکة، کذا ذکره البدر العيني في شرح البخاري.

طحطاوي، حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح / 340. 341

’’سراج میں لکھا ہے : عورتیں جب زیارتِ قبور کا ارادہ کریں تو اس سے ان کا مقصد اگر آہ و بکا کرنا ہو جیسا کہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے تو اس صورت میں ان کے لئے زیارت کے لئے جانا جائز نہیں اور ایسی صورت پر اس صحیح حدیث مبارکہ کہ اﷲ تعالیٰ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرماتا ہے، کا اطلاق ہوگا اور اگر زیارت سے اُن کا مقصد عبرت و نصیحت حاصل کرنا اور قبورِ صالحین سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی طلب اور حصولِ برکت ہو جس سے شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو تو اس صورت میں زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ خواتین بوڑھی ہوں، نوجوان عورتوں کا (بے پردہ) زیارت کے لئے جانا مکروہ ہے جیسا کہ ان کا مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کے لئے آنا مکروہ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کی رخصت تب ہے جب اس طریقے سے زیارت قبور کو جائیں کہ جس میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی رخصت مرد و زن دونوں کے لئے ثابت ہے کیونکہ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی) سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اپنے بھائی حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی مکہ میں زیارت کرتی تھیں۔ یہی بات علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے شرح صحیح بخاری (عمدۃ القاری) میں لکھی ہے۔‘‘

عَنْ حَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه قَالَ : لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرِ.

رَوَاه الْحَاکِمُ وَقَالَ : وَهذِه الأحَادِيثُ الْمَرْوِية فِي النَّهيِ عَنْ زِيارَة الْقُبُوْرِ مَنْسُوْخَة وَالنَّاسِخُ لَها حَدِيثُ عَلْقَمَة بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيمَانَ بْنِ بُرَيدَة عَنْ أبِيه عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : قَدْ کُنْتُ نَهيتُکُمْ عَنْ زِيارَة الْقُبُوْرِ، ألَا فَزُوْرُوْها فقد أذن اﷲ تعالٰي لنبيه صلي الله عليه وآله وسلم في زيارة قبر أمه وهذا الحديث مخرج في الکتابين الصحيحين للشيخين رضي اﷲ عنهما.

قال ابن القدامة : اختلف الرواية عن أحمد في زيارة النساء القبور : فروي عنه کراهتها لما روت أم عطية قالت : نهينا عن زيارة القبور ولم يعزم علينا. رواه مسلم.

ابن قدامة، المغني، 2 / 226

’’ابن قدامہ بیان کرتے ہیں : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کے حوالے سے دو مختلف روایتیں مروی ہیں ان میں سے ایک کراہت کے بارے میں ہے کہ حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں قبروں کی زیارت سے منع فرمایا لیکن ہم پر سختی نہیں کی۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘

والرواية الثانية : لا يکره، لعموم قوله عليه السلام : کنت نهيتکم عن زيارة القبور، فزوروها. وهذا يدلّ علي سبق النهي ونسخه، فيدخل في عمومه الرّجال والنّساء.

ابن قدامة، المغني، 2 / 326

’’دوسری روایت یہ ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا اب ان کی زیارت کیا کرو یہ حکم ممانعت ختم ہونے اور منسوخ ہونے پر دلالت کرتا ہے پس اس عموم میں مرد و زَن دونوں شامل ہوگئے۔‘‘

نوٹ:

اور دیگر سوالات کے تفصیلی اور مدلل جوابات کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی