جواب:
اللہ مجدہ کا ارشاد گرامی ہے کہ
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَo
(النَّحْل ، 16 : 43)
سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo
اس سے معلوم ہوا کہ علم نہ ہو تو کسی عالم سے مسائل پوچھنا ضروری ہے یہ بھی واضح ہے کہ ائمہ اربعہ بہت بڑے عالم تھے اس لیے علماء کرام ان کے اقوال پر فتوی دیتے ہیں۔
تقلید کی دو اقسام ہیں :
ایک وہ شخص جس کے پاس علم نہیں ہے یا کچھ علم تو ہوتا ہے لیکن اس درجے کا نہیں کہ قرآن اور احادیث سے مسائل مستنبط کرسکے۔ لہذا ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک امام کی تقلید کی جائے۔
دوسرا وہ شخص ہے جو علم والا ہو اور وہ قرآن و حدیث سے مسائل کا حل مستنبط کر سکتا ہو۔ وہ علم تفسیر کا ماہر بھی ہو اور علم الحدیث، علم الفقہ، ناسخ و منسوخ اور مقصد حکم سے واقفیت بھی رکھتا ہو تو ایسے لوگ مجتہد ہوتے ہیں۔ اگر کسی کی تقلید کریں تو درست ہے اور نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے جیسے امام بخاری اور امام ترمذی وغیرہ۔
علما کرام فرماتے ہیں کہ قواعد و اصول میں تمام علماء چاروں مذاہب میں سے کسی نہ کسی کے مقلد ہیں لیکن فروعات میں مجتہد پر تقلید لازم نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔