جواب:
وہ مومن جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لاتا ہے، اس کے تمام تقاضے پورے کرتا اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نہ صرف درجہ صدیقیت پر فائز کرتا ہے بلکہ اسے بغیر گردن کٹائے درجہ شہادت بھی عطا کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ ایمان کے اس درجے میں اللہ کی گواہی دینے والا اور اس پر شاہد بن جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ.
الحديد، 57 : 19
’’وہی (خوش نصیب) اللہ کی جناب میں صدیق اور شہید ہیں۔ ان کے لئے (خصوصی) اجر اور ان کا (مخصوص) نور ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے لیے تقوی اختیار کرنے والوں اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت کے دو حصے عطا کرتا ہے اور انہیں ایسے نور سے بہرہ مند فرماتا ہے جس کی برکت سے ان کے لئے گمراہی ہدایت میں بدلتی چلی جائے گی اور قیامت کے دن بھی وہ نور ان کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہو گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ
(الْحَدِيْد، 57 : 28)
اے ایمان والو! اللہ کا تقوٰی اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔