السلام علیکم! میرے والد کا انتقال 2001ء میں ہوگیا تھا انتقال کے بعد وراثت تقیسم نہیں ہوئی تھی، میرے والد کی 4 جائیداد تھیں جس میں سے ایک جائیداد والد صاحب نے سب سے بڑے بھائی کو اپنی زندگی میں ہی حصہ بول کر دے دی تھی۔ جس پر ہم میں سے کسی بھائی کو کوئی اعتراض نہیں تھا اور ایک گھر کو والدہ اور مجھ سے بڑے بھائی نے بیچ کر دوسرا گھر لے لیا تھا اور ایک گھر 2010 میں والدہ نے دوسرے بڑے بھائی کو دے دیا تھا اور مجھے حصے کے نام پر ایک گھر 2013 میں والدہ نے مجھے دے دیا تھا جو کہ ناقابل رہائش تھا اور 2013 میں جو گھر مجھے حصے میں ملا اس کی مالیت غالبا ساڑھے چھ لاکھ تھی جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ کیونکہ میں الحمداللہ مالی طور پر مستحکم تھا اور اللہ کے فضل و کرم سے ابھی بھی ہوں۔ 2014 میں میں نے وہ گھر بنوا لیا جس میں سارے پیسے میری محنت کے لگے ہوئے ہیں۔ اب میرے گھر کی مالیت غالبا 1 کڑور ہے اور اسی علاقے میں کچا گھر یا خالی زمین کی مالیت غالبا 50 سے 60 لاکھ ہے۔ میری ایک بڑی بہن تھی جس کا دو سال قبل انتقال ہوا تھا اور ایک سب سے چھوٹی بہن ہے جوکہ شادی شدہ ہیں لیکن میری والدہ نے دونوں بہنوں کو حصہ نہیں دیا- اب میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنی دونوں بہنوں کو حصہ دینا چاھتا ہوں تو میں کس حساب سے دونوں بہنوں کو حصہ دوں؟ مطلب پرانے حساب سے جس وقت مجھے حصہ ملا تھا یا نئی مالیت کے حساب سے جو اس وقت ہے۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ میرے سب سے بڑے بھائی کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے تو میں بڑے بھائی کی طرف سے بھی اپنی بہنوں کو حصہ دے سکتا ہوں؟ ان کے مکان کی قیمت اس وقت 45 سے 50 لاکھ ہے جب انکو والد صاحب نے اپنی زندگی میں گھر دیا تھا اس وقت قیمت غالبا 15 سے 20 لاکھ تھی۔ معافی چاہتا ہوں بات کچھ لمبی ہوگئی- ازراہ کرم رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ
جواب:
سائل کے والدِ محترم نے اپنی زندگی میں جو مکان اپنے بڑے بیٹے کو رہنے کیلئے دیا تھا، اگر انہوں نے گواہوں کی موجودگی میں وہ مکان بڑے بیٹے کو ہبہ کر دیا تھا اور قانونی کاروائی کے بعد اس کا قبضہ بھی دے دیا تھا تو وہ مکان اسی بیٹے کی ملکیت ہے۔ اس مکان کو سائل کے والدِ محترم کی وراثت میں شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی یہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ:
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعُمْرَى، أَنَّهَا لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عمریٰ (زندگی کے لیے ہبہ) کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ یہ اسی کا ہے جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔‘‘
البخاري، الصحیح، كتاب: الهبة وفضلها، باب: ما قيل في العمرى والرقبى، 2: 925، الرقم: 24٨2، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، فَإِنَّهَا لِلَّذِي أُعْطِيَهَا، لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا، لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ.
’’جس شخص کو او ر اس کے وارثوں کو تاحیات کوئی چیز دی گئی سو یہ چیز اسی کے لیے ہے جس کو دی گئی ہے وہ چیز دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گی کیونکہ اس نے ایسی چیز دی ہے جس میں وراثت جاری ہوگی۔‘‘
مسلم، الصحیح، كتاب الهبات، باب العمرى، 3: 1245، الرقم: 1625، بیروت: دار احیاء التراث العربي
اس لیے بڑے بیٹے کو ہبہ کیے گئے مکان کے علاوہ جو کچھ سائل کے والدِ مرحوم کی ملکیت تھا وہ وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ سائل کی والدہ محترمہ یا کوئی دوسرا وارث اسے اپنی مرضی سے تقسیم نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ عملِ حرام کا مرتکب اور خدا کی عدالت میں جوبدہ ہوگا۔
سائل کے والدِ مرحوم کی کل قابلِ تقسیم جائیداد سے بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النِّسَآء، 4: 12
مرحوم کی بیوہ کو اس کا متعین کردہ آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد کے برابر چھ حصے بنا کر ہر بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا یعنی ہر بیٹے کو بیٹی سے دوگنا حصہ دیا جائے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۚ
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النِّسَآء، 4: 11
مذکورہ حصے جائیداد کی موجودہ قیمت کے مطابق تقسیم کیئے جائیں گے۔ وراثت کی تقسیم سائل کے والد کی وفات کے فوری بعد ضروری تھی، مگر بوجوہ ایسا نہیں کیا جاسکا اور تاخیر ہوئی۔ اگر ورثاء کو اُن کے حصے وقت پر مل جاتے تو ورثاء اُن سے فائدہ اٹھا سکتے تھے، جس سے وہ محروم رہے۔ مرحوم کی وراثت ہر اُس وارث کو ملے گی جو مرحوم کی وفات کے وقت زندہ و موجود تھا۔ اگر بعد میں کسی وارث کا جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مرحوم کی دو بیٹیوں کا وصال ہوگیا ہے تو اُن کا حصہ اُن کی اولاد یا دیگر ورثاء کو مل جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔