کیا نماز میں سونا ناقضِ وضو ہے؟


سوال نمبر:5963
نماز میں سو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

  • سائل: حبیبمقام: پاکپتن
  • تاریخ اشاعت: 20 مئی 2021ء

زمرہ: وضوء

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ.

اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔

الْمَآئِدَة، 5: 6

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نماز کے لیے وضو شرط ہے اور وضو سے مراد کچھ اعضاء کو دھونا اور کچھ اعضاء کا مسح کرنا ہے۔ علامہ عبداللہ بن محمود موصلی احناف کے ہاں رائج وضو کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الْوُضُوءُ هُوَ الْغَسْل وَالْمَسْحُ عَلَى أَعْضَاءٍ مَخْصُوصَةٍ.

وضو مخصوص اعضاء کو دھونا اور مسح کرنا ہے۔

الموصلي، الإختيار لتعليل المختار، 1: 39، دار الرسالة العالمية

جو عوامل وضو کو توڑ دیتے ہیں ان میں نیند بھی شامل ہے۔ جمہور فقہاء (احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ) کی رائے ہے کہ نیند فی الجملہ ناقضِ وضو ہے۔ ان کی دلیل حضرت علی بن ابی طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

وِكَاءُ السَّهِ الْعَيْنَانِ، فَمَنْ نَامَ فَلْيَتَوَضَّأْ.

آنکھیں‘ سرین کا بندھن ہیں جو سو جائے اُسے وضو کرنا چاہے۔

  1. أبو داؤد، السنن، كتاب الطهارة، باب الوضوء من النوم، 1: 52، الرقم: 203، بيروت: دار الفكر
  2. ابن ماجه، السنن، كتاب الطهارة، باب الوضوء من النوم، 1: 161، الرقم: 477، بيروت: دار الفكر

یہی وجہ ہے کہ گہری نیند سو جانے سے وضو ٹوٹنے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور لیٹ کر سونے یا کسی چیز کا سہارا لیکر سونے کو بھی نواقضِ وضو میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ ان صورتوں میں انسان پرسکون ہو جاتا ہے جس سے اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ جب اعضاء ڈھیلے ہو جائیں تو وضو ٹوٹنے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الْعَيْنَيْنِ وِكَاءُ السَّهِ، فَإِذَا نَامَتْ الْعَيْنَانِ اسْتُطْلِقَ الْوِكَاءُ.

دونوں آنکھیں سیرین کا بندھن ہیں، جب دونوں آنکھیں سو جاتی ہیں تو بندھن ڈھیلا پڑ جاتا ہے

أحمد بن حنبل، المسند، 4: 96، الرقم: 16925، مصر: مؤسسة قرطبة

اونگھ اور گہری نیند میں بھی فرق ہے کیونکہ معمولی اونگھ سے جسم ڈھیلا نہیں پڑتا جبکہ گہری نیند جس سے جسم پرسکون ہو جائے تو اس صورت میں اعضائے بدن ڈھیلے پڑتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان لیٹ جائے یا کسی چیز کا سہارا لیکر سو جائے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الوُضُوءَ لَا يَجِبُ إِلَّا عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا، فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ.

سونے سے وضو اس حالت میں واجب ہوتا ہے جب کوئی لیٹ کر سو جائے کیونکہ لیٹنے سے اعضائے بدن کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔

  1. الترمذي، السنن، كتاب الطهارة، باب ما جاء في الوضوء من النوم، 1: 111، الرقم: 77، بيروت: دار إحياء التراث العربي
  2. الدار قطني، السنن، كتاب الطهارة، باب في ما روي فيمن نام قاعدا وقائما ومضطجعا وما يلزم من الطهارة في ذلك، 1: 159، الرقم: 1، بيروت: دار المعرفة

اگر کوئی شخص نیند کی وجہ سے گر جائے یا کسی ایسی چیز کا سہارا لگا کر سو جائے کہ اس شے کو ہٹانے سے وہ گر جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ صاحبِ ہدایہ علامہ المرغینانی فرماتے ہیں:

وَالنَّوْمُ مُضْطَجِعًا أَوْ مُتَّكِئًا أَوْ مُسْتَنِدًا إلَى شَيْءٍ لَوْ أُزِيلَ عَنْهُ لَسَقَطَ لِأَنَّ الِاضْطِجَاعَ سَبَبٌ لِاسْتِرْخَاءِ الْمَفَاصِلِ فَلَا يَعْرَى عَنْ خُرُوجِ شَيْءٍ عَادَةً، وَالثَّابِتُ عَادَةً كَالْمُتَيَقَّنِ بِهِ، وَالِاتِّكَاءُ يُزِيلُ مَسْكَةَ الْيَقَظَةِ لِزَوَالِ الْمَقْعَدِ عَنْ الْأَرْضِ، وَيَبْلُغُ الِاسْتِرْخَاءُ غَايَتَهُ بِهَذَا النَّوْعِ مِنْ الِاسْتِنَادِ، غَيْرَ أَنَّ السَّنَدَ يَمْنَعُهُ مِنْ السُّقُوطِ، بِخِلَافِ النَّوْمِ حَالَةَ الْقِيَامِ وَالْقُعُودِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا هُوَ الصَّحِيحُ، لِأَنَّ بَعْضَ الِاسْتِمْسَاكِ بَاقٍ، إذْ لَوْ زَالَ لَسَقَطَ فَلَمْ يَتِمَّ الِاسْتِرْخَاءُ، وَالْأَصْلُ فِيهِ قَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: لَا وُضُوءَ عَلَى مَنْ نَامَ قَائِمًا أَوْ قَاعِدًا أَوْ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، إنَّمَا الْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا، فَإِنَّهُ إذَا نَامَ مُضْطَجِعًا اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ.

اور کروٹ لیکر سونا یا ٹیک لگا کر سونا یا کسی ایسی چیز کی طرف سہارا لگا کر سونا کہ اگر اسے ہٹا لیا جائے تو سونے والا گر پڑے، اس لیے کہ کروٹ لینا جوڑوں کا بند ڈھیلے ہونے کا سبب ہے، لہٰذا عادتاً کسی چیز کے نکلنے سے خالی نہیں ہوگا اور عادتاً ثابت ہونے والی چیز یقینی طور پر ثابت شدہ چیز کی طرح ہے۔ اور ٹیک لگانا بیداری کی روکاوٹ کو ختم کر دیتا ہے، اس لیے کہ مقعد زمین سے ہٹ جاتا ہے۔ اور نیند میں اس طرح سہارا لینے سے استرخاء اپنی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے، لیکن ٹیک انسان کو گرنے سے روکے رہتی ہے برخلاف قیام، قعود، رکوع اور سجدے کی حالت کے نماز وغیرہ میں یہی صحیح ہے۔ کیونکہ کچھ استمساک باقی ہے، اس لیے کہ اگر استمساک ختم ہو جاتا تو آدمی گر پڑتا، لہٰذا استرخاء مکمل نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی اصل ہے کہ اس شخص پر وضو واجب نہیں ہے جو کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا رکوع یا سجدے کی حالت میں سوئے، وضو تو اس شخص پر واجب ہے جو کروٹ لیکر سوئے، اس لیے کہ جب کوئی شخص کروٹ لیکر سو گیا تو اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوگئے۔

المرغيناني، الهداية، كتاب الطهارات، فصل في نواقض الوضوء، 1: 15، المكتبة الإسلامية

مذکورہ بالا تصریحات میں ایک بات مشترک ہے کہ جسم کا ڈھیلا پڑ جانا وضو ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے جب دورانِ نماز ایسی گہری نیند آ جائے جس سے اعضائے بدن ڈھیلے پڑ جائیں تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ خاص طور پر تشہد میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کے سو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ قیام، رکوع اور سجدے میں سخت نیند کی وجہ سے انسان گر جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری