کیا بیوہ دوران عدت شوہر کا گھر چھوڑ سکتی ہے؟


سوال نمبر:5725
السلام علیکم! کیا عورت کے لیے ضروری ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اسی کے گھر پر عدت مکمل کرے؟

  • سائل: عبدالجمال ناصرمقام: ملتان
  • تاریخ اشاعت: 13 جولائی 2020ء

زمرہ: بیوہ کی عدت  |  عدت کے احکام

جواب:

قرآن وحدیث کی رو سے بیوہ غیر حاملہ کے لئے عدت چار ماہ دس دن اور حاملہ کے لئے وضع حمل ہے جو اس کو اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارنی چاہیے۔ عدت والی عورت دورانِ عدت نہ نکاح کر سکتی ہے اور نہ ہی زیب و زینت کرسکتی ہے۔ اِلاّ یہ کہ اگر شوہر کے گھر میں اس کی عزت و آبرو اور جان ومال محفوظ نہ ہو یا مجبوراً اسے ملازمت کے سلسلہ میں گھر سے باہر جانا پڑے تو جاسکتی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.

میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تھی، انہوں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کا ارادہ کیا، انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ایک شخص نے ڈانٹا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! تم اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لاؤ، ہوسکتا ہے کہ تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیکی کرو۔

  1. مسلم، الصحيح، كتاب الطلاق، باب جواز خروج المعتدة البائن والمتوفي عنها زوجها في النهار لحاجتها، 2: 1121، الرقم: 1483، بيروت: دار إحياء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 321، الرقم: 14484، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. أبو داود، السنن، كتاب الطلاق تفريع أبواب الطلاق ، باب في المبتوتة تخرج بالنهار، 2: 289، الرقم: 2297، دار الفكر

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابیہ کو عدت کے ایام میں اپنے باغ کی کھجوریں توڑنے کے لئے گھر سے باہر جانے کی اجازت عطا فرما دی تھی۔ اسی طرح جب عورت کی حفاظت نہ ہو تو وہ بھی محفوظ مقام پر جا سکتی ہے کیونکہ عورت کی عزت وناموس اور جان ومال کا تحفظ ضروری ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:

لَوْ کَانَ فِي الْوَرَثَةِ مَنْ لَیْسَ مَحْرَمًا لَهَا وَحِصَّتُهَا لَا تَکْفِیهَا فَلَهَا أَنْ تَخْرُجَ وَإِنْ لَمْ یُخْرِجُوهَا.

اگر خاوند کے وارثوں میں ایسا کوئی ہو جو اس کی بیوہ کا محرم نہیں اور بیوہ کا حصہ رہنے کے لیے ناکافی ہے وہ اس مکان سے نکل سکتی ہے اگرچہ باقی رشتہ دار اُسے نہ نکالیں۔

شامي، ردالمحتار، 3: 537، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر

درج بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوہ عدت کی مدت شوہر کے گھر میں مکمل کرے، لیکن اگر ایسا کرنے میں کوئی امر مانع ہے تو عدت کے ایام اپنے میکے میں یا کسی عزیز (جیسے بھائی، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ) کے ہاں بھی گزار سکتی ہے۔ بامر مجبوری گھر سے باہر بھی جاسکتی ہے۔ بیوہ کے لیے عدت کے ایام شوہر کے گھر گزارنے کے لزوم پر تمام علماء کا اتفاق ہے، تاہم علمائے احناف مخصوص وجوہات کی بناء پر اس میں رخصت دیتے ہیں۔ جیساکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ.

اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں۔

الطَّلاَق، 65: 1

اس لیے مطلقہ یا بیوہ عورت کو عدت کے دوران بلاعذر شرعی گھر سے باہر نکلنا نہیں چاہئے، کسی وجہ سے شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو تو عورت اپنے میکے یا کسی دوسرے گھر میں بھی عدت گزار سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری