کیا مورِث کی وفات سے پہلے فوت ہونے والا رشتہ دار ترکہ سے حصہ پاتا ہے؟


سوال نمبر:5666
السلام علیکم! میرے والد صاحب کا انتقال 2016 میں ہوا تھا جبکہ میری بڑی بہن کا انتقال 2007 میں ہوا تھا، کیا والد صاحب کی وراثت سے مرحومہ بہن کی اولاد کو حصہ ملے گا؟

  • سائل: راؤ فیصلمقام: نوابشاہ، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 16 جنوری 2020ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

اگر مُورِث (جس کی وفات کے بعد اس کا ترکہ تقسیم کے لیے زیرِ غور ہے) کی زندگی میں اُس کا کوئی بیٹا یا بیٹی یا قریبی رشتہ دار فوت ہوجائے اور مُورِث کے مزید بیٹے اور بیٹیاں حیات ہوں تو فوت شدہ بیٹے، بیٹی یا اُن کی اولاد کو مُورِث کے ترکے سے بطور وارث کچھ نہیں ملے گا۔ ترکہ کے ورثاء صرف وہی رشتہ دار بنتے ہیں جو مُورِث کی وفات کے وقت زندہ ہوں۔ تاہم اگر ورثاء حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس فوت شدہ رشتے دار کی اولاد کو استحسان یا خیرخواہی کے طور پر کچھ دینا چاہیں تو حرج نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا.

اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔

النساء، 4: 8

قرآنِ کریم کی درج بالا آیتِ مبارکہ میں ترغیب دی گئی ہے کہ تقسیمِ وراثت کے موقع پر ورثاء اگر احسان اور بھلائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر وارث نادار رشتے داروں کو بھی کچھ عطاء کر دیں تو یہ ان کے لیے باعثِ اجر ہے۔

مسئلہ مسئولہ میں بھی والد کی وفات سے پہلے فوت ہونے والی بیٹی یا اس کی اولاد بطور وارث والد کے ترکہ سے حصہ نہیں پائیں گے، البتہ اگر تمام ورثاء اتفاقِ رائے سے اُس فوت شدہ بیٹی کی اولاد کو اُس بیٹی کے حصے جتنا یا اس سے کم و پیش رضاکارانہ طور پر بطور تحفہ دے دیں تو یہ صلہ رحمی کا عمل ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا سبب بنے گا اور باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔