جواب:
اس کے بعد ایمان کا دوسرا درجہ آتا ہے جسے ’’عرفان‘‘ کہا جاتا ہے یعنی جس حقیقت کو بن دیکھے مانا جا رہا ہے اس حقیقت کے قرائن اور شواہد کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور ان قرائن و شواہد کی بنیاد پر اس ہستی پر اپنا یقین پختہ کرنا عرفان کہلاتا ہے، یہ ’’عرفان بالشواہد‘‘ ہے۔ یقین کے اس درجے کا ذکر قرآن حکیم میں یوں آتا ہے:
وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَO
الذاريات، 51: 21
’’اور خود تمہارے نفوس میں (بہت سی) نشانیاں ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے۔‘‘
اس آیۃ کریمہ میں انسانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے بے پایاں تصرفات اور اس کے کمالات پر ایمان لانے، سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کر کے صحیح نتائج اخذ کرنے کی استعداد اور صلاحیت سب کچھ تمہارے اندر مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تمام حقائق اور انکی علامات تمہارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ ذرا اپنے اندر جھانک کر تو دیکھو، اپنی بشریت کے تاریک حجابات اٹھا کر حقیقت کو سمجھنے کی کوشش تو کرو، کس طرح حقائق تمہارے باطن سے جھلکتے نظر آتے ہیں۔
اسے مثال سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص مکان سے دوڑتا ہوا باہر آئے جبکہ اس کے ہاتھ میں خون آلود چھری ہو، اس کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے ہوں اور وہ پریشان و ہراساں بھی ہو اور وہ اسی عالم میں دوڑتا ہوا نکل جائے، اس کیفیت میں کوئی شخص قتل کے قرائن اور شواہد کو دیکھے اور ان کی مدد سے قتل کا یقین کر لے تو یہ ایمان کا دوسرا مرحلہ یعنی عرفان ہے۔‘‘
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔