مسجد میں‌ لوگوں‌ کو سلام کرنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5395
السلام علیکم! اگر لوگ مسجد میں‌ جماعت کا انتظار کرتے ہوئے بیٹھے ہیں اور کوئی تلاوت وغیرہ نہیں‌ کر رہے۔ باہر سے ایک شخص آ کر انہیں‌ سلام کرتا ہے تو کیا اس نے اچھا عمل کیا یا برا؟

  • سائل: اظہر حسین قادریمقام: کلرسیداں، راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 11 مئی 2019ء

زمرہ: آدابِ ملاقات

جواب:

اگر جماعت کھڑی نہ ہوئی ہو تو مسجد میں بیٹھے لوگوں کو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں‘ خواہ کچھ لوگ سنن و نوافل ادا کر رہے ہوں اور کچھ تلاوت اور ذکر اذکار میں مصروف ہوں۔ اگر کچھ لوگ انفرادی عبادات میں مصروف ہوں تو باہر سے آنے والا دھیمی آواز سے سلام کرے تاکہ عبادات میں مصروف افراد کو دِقت نہ ہو۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

إِنْ دَخَلَ مَسْجِدًا وَبَعْضُ الْقَوْمِ فِي الصَّلَاةِ وَبَعْضُهُمْ لَمْ يَكُونُوا فِيهَا يُسَلِّمُ وَإِنْ لَمْ يُسَلِّمْ لَمْ يَكُنْ تَارِكًا لِلسُّنَّةِ.

اگر ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور بعض لوگ نماز پڑھ رہے ہوں اور بعض نہ پڑھ رہے ہوں تو وہ سلام کرے‘ اور اگر وہ سلام نہ کرے تو بھی سنت کو ترک کرنے والا نہیں ہوگا۔

ابن عابدين، ردالمحتار، 6: 413، بيروت: دار الفكر

راہ اعتدال بھی یہی ہے، جبکہ کچھ لوگ اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ چونکہ سلام کرنے اور نہ کرنے والی روایات موجود ہیں۔ ان میں تطبیق کی جائے تو یہی بہترین راستہ ہے کہ موقع محل کے مطابق مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ تاہم جب جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت سلام نہ کیا جائے بلکہ فوراً جماعت میں شامل ہو جانا بہتر ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری