حضرت یوسف اور بی بی زلیخا کی شادی کی کیا حقیقت ہے؟


سوال نمبر:5138
السلام علیکم! حضرت یوسف علیہ السلام کی زلیخا سے بعد میں شادی ہوئی تھی؟ اس سوال کو لے کر ہم بڑے تشویشی کیفیت میں مبتلا ہیں. اک مولوی صاحب نے کہا کہ اس قمیض والے واقعہ کے سالوں بعد یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو سڑک پر دیکھا۔ زلیخا کو ابھی بھی یوسف علیہ السلام سے پیار تھا تو یوسف علیہ السلام نے زلیخا سے شادی کر لی. ہم آپ سے اس مسئلے کی واضح حقیقت چاہتے ہیں. شکریہ.

  • سائل: شاہد عمرانمقام: منڈی بہاؤالدین. (پاکستان)
  • تاریخ اشاعت: 01 دسمبر 2018ء

زمرہ: عصمت انبیاء علیہم السلام

جواب:

اگرچہ قرآن و حدیث میں صراحتاً یا اشارتاً سیدنا یوسف علیہ السلام اور بی بی زلیخا کی شادی کا ذکر نہیں ہوا تاہم کچھ مفسرین اور مؤرخین نے اسرائیلی روایات نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیزِ مصر کی وفات کے بعد زلیخا کی شادی سیدنا یوسف علیہ السلام سے ہوگئی تھی اور ان کے ہاں دو بیٹے بھی پیدا ہوئے تھے۔ امام ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی اور ابوالقاسم محمود بن عمر زمخشری لکھتے ہیں:

فَزَوَّجَ الْمَلِکُ یُوسُفَ رَاعِیلَ امْرَأَةَ الْعَزِیزِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهَا قَالَ: أَلَیْسَ هَذَا خَیْرًا مِمَّا کُنْتِ تُرِیدِینَ؟ فَقَالَتْ: أَیُّهَا الصِّدِّیقُ لَا تَلُمْنِی، فَإِنِّی کُنْتُ امْرَأَةً حَسْنَاء َ نَاعِمَةً کَمَا تَرَی، وَکَانَ صَاحِبِی لَا یَأْتِی النِّسَاءَ، وَکُنْتَ کَمَا جَعَلَکَ اللهُ مِنَ الْحُسْنِ فَغَلَبَتْنِی نَفْسِی فَوَجَدَهَا یُوسُفُ عَذْرَاءَ فَأَصَابَهَا فَوَلَدَتْ لَهُ رَجُلَیْنِ إِفْرَاثِیمَ بْنَ یُوسُفَ، وَمَنْشَا بْنَ یُوسُفَ...الخ.

(زلیخا کے خاوند قطفین (عزیز کی وفات کے بعد) مصر کے بادشاہ نے زلیخا (راعیل) کا نکاح یوسف علیہ السلام سے کردیا۔ جب آپ زلیخا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا یہ اس سے بہتر نہیں، جو تو چاہتی تھی؟ وہ کہنے لگی: اے سچے (یوسف) مجھے ملامت نہ کریں۔ میں حسین و جمیل نازوں میں پلی عورت تھی جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اور میرا خاوند عورتوں کے پاس نہیں آتا تھا (نامرد تھا)۔ جیسا کہ اﷲ نے آپ کو حسن دیا تھا۔ میرا نفس مجھ پر غالب آگیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے (واقعی) اس بی بی کو کنواری پایا۔ اس سے قربت کی، آپ کے اس سے دو بیٹے افراہیم اور منشاء پیدا ہوئے۔

  1. قرطبي،الجامع الاحکام القرآن، 9: 213، القاهرة: دار الشعب
  2. زمخشري، الكشاف، 2: 455، بيروت: دار إحياء التراث

امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں:

أَنَّ یُوسُفَ عَلَیْهِ السَّلَامُ کَانَ فِی غَایَةِ الْجَمَالِ وَالْحُسْنِ، فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ طَمِعَتْ فِیهِ وَیُقَالُ أَیْضًا إِنَّ زَوْجَهَا کَانَ عَاجِزًا.

یوسف حد درجہ حسین و جمیل تھے۔ جب اس بی بی نے آپ کو دیکھا تو آس لگا بیٹھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا خاوند نامرد تھا۔

الرازي، تفسیر الکبیر، 18: 90، بیروت: دارالکتب العلیة

حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں:

وَقِيلَ: إِنَّهُ لَمَّا مَاتَ زَوَّجَهُ امْرَأَتَهُ زَلِيخَا فَوَجَدَهَا عَذْرَاءَ؛ لِأَنَّ زَوْجَهَا كَانَ لَا يَأْتِي النِّسَاءَ فَوَلَدَتْ لِيُوسُفَ علیہ السلام رَجُلَيْنِ، وَهَمَا أَفْرَاثِيمُ، وَمَنْشَا.

اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ جب اسکا شوہر فوت ہوا تو بادشاہ نے حضرت یوسف کی شادی (عزیز مصر)کی بیوی زلیخا سے کروا دی اور یوسف علیہ السلام نے انکو کنوارا پایا کیونکہ انکا شوہر عورتوں کی طرف نہیں آتا تھا پس (زلیخا نے) حضرت یوسف علیہ السلام کے دو بچوں کو جنم دیا اور وہ دونوں افراثیم/افرائیم اور منشا/ منسیٰ/ منسا ہیں۔

ابن كثير، البداية والنهاية، 1: 210، بيروت: مكتبة المعارف

اور علامہ ابو لیث نصر بن محمد سمرقندی اپنی کتاب بحر العلوم المعروف تفسیر السمرقندی میں ایک خبر نقل کرتے ہیں:

إِنَّ زَوْجَ زُلَيْخَا مَاتَ وَبَقِيَتْ إِمْرَأَتُهُ زُلَيْخَا فَجَلَسَتْ يَوْمًا عَلَى الطَّرِيْقِ فَمُرَّ عَلَيْهَا يُوْسَفُ فِيْ حَشْمِهِ فَقَالَتْ زَلَيْخَا اَلْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِيْ جَعَلَ الْعَبْدَ مَلِكًا بِطَاعَتِهِ وَجَعَلَ الْمَلِكَ مَمْلُوكًا بِمَعْصِيَّتِهِ وَتَزَوَّجَهَا يُوْسُفُ فَوَجَدَهَا عَذْرَاءَ.

زلیخا کا خاوند مر گیا اور اس کی بیوی زلیخا زندہ رہی، ایک دن وہ سرِ راہ بیٹھی تھی کہ یوسف علیہ السلام کا اپنے خدام وحشم کے ساتھ اس پر گزر ہوا۔ زلیخا بولی سب تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے ایک غلام کو اپنی عبادت کے بدلے بادشاہ بنا دیا۔ اور بادشاہ کو اس کی نافرمانی کے بدلے غلام بنا دیا، اور یوسف علیہ السلام نے اس سے شادی کی اور اُسے کنواری پایا۔

سمرقندي، بحر العلوم، 2: 199، بيروت: دار الفكر

بحرحال حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کی شادی کا قصہ قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے۔ مفسرین و مؤرخین نے اسرائیلی (بائبل مقدس) کی روایات کی روشنی میں اسے بیان کیا ہے۔ کوئی شخص اس کی تصدیق کرنا چاہے تو فبہا‘ کوئی اختلاف رکھے تو اس روایت و بیان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسلام کے اصول و فروعی اعتقاد کا مسئلہ نہیں کہ جس کی تصدیق و تردید کوئی شرعی مطالبہ ہو۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری