جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَo اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَo وَاَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا ﷲَ کَثِیْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاط وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَo
اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعراء) ہر وادیٔ (خیال) میں (یونہی) سرگرداں پھرتے رہتے ہیں۔ (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)۔ اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں۔ سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعے اسلام اور مظلوموں کا دفاع کیا بلکہ ان کاجوش بڑھایا) اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جاتے ہیں۔
الشعراء، 26: 224-227
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَةً.
بے شک کچھ اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں۔
بخاري، الصحیح، 5: 2276، رقم: 5793، دار ابن کثیر الیمامة بیروت
اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شاعری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هُوَ کَلَامٌ فَحَسَنُهٗ حَسَنٌ وَقَبِیْحُهُ قَبِیْحٌ.
یہ کلام ہے چنانچہ اچھا شعر، اچھا کلام اور برا شعر، برا کلام ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس انجشہ نامی ایک لڑکا تھا جو دورانِ سفر اپنی سریلی آواز سے اونٹوں کو مست کیا کرتا تھا تاکہ وہ تیز رفتاری سے سفر طے کریں، ایک مرتبہ درانِ سفر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے قافلے میں شامل عورتوں کا خیال رکھنے کا حکم فرمایا کہ وہ اپنی سریلی آواز سے اونٹوں کو اتنا نہ دوڑائے جس سے خواتین کو تکلیف پہنچے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَ لِرَسُولِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم حَادٍ حَسَنُ الصَّوْتِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم رُوَیْدًا یَا أَنْجَشَةُ لَا تَکْسِرِ الْقَوَارِیرَ یَعْنِي ضَعَفَةَ النِّسَاءِ.
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک خوش الحان حدی خواں تھا، رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا: اے انجشہ، شیشوں کو نہ توڑنا، یعنی کمزور عورتوں کو تکلیف نہ دینا۔
مسلم، الصحیح، 4: 1812، رقم: 2323، دار احیاء التراث العربي بیروت
لہٰذا اچھا اور معیاری کلام ہر مسلمان مرد و عورت، بوڑھے اور جوان کے لیے مباح وجائز ہے جبکہ لغو اور فحش کلام ہر مسلمان کے لیے ناجائز وحرام ہے۔
یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo
اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔
الاحزاب، 33: 32
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں ﷲ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے وقت نرم لہجہ نہ اختیار کرنا کیونکہ جب بھی عورت غیر مرد سے نرم لہجہ اپناتی ہے یا لچک دکھاتی ہے تو بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ لَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِیبَاتِ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِي مِنْ أَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْکَ قَالَ وَمِنِّي وَلَکِنَّ ﷲَ أَعَانَنِي عَلَیْهِ فَأَسْلَمُ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جائو کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ إِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یَا رَسُولَ ﷲِ أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ.
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا عورت (نامحرم) کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول ﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔
یہاں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ مزید ایک حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ ﷲِ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا قَالَ ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ.
حضرت ابن عباسٍ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول ﷲ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
لہٰذا سوشل سائٹس پر ہر محرم و نامحرم کو اپنے ساتھ ایڈ کر کے دین اسلام کا پیغام عام کرنے اور ملک وقوم کی بہتری کے لئے پوسٹس لائک یا اَن لائک کرنے، شئیر کرنے اور اُن پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر اس کے برعکس نامحرم لڑکے لڑکیوں کا آپس میں بے تکلفی سے گفتگو کرنا اور ہنسی مزاح کرنا، لطیفے سنانا اور قہقہے لگانا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔