لفظ شیعہ کا لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟


سوال نمبر:4724
السلام علیکم مفتی صاحب! لفظ شیعہ کی لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟

  • سائل: آفتاب علیمقام: گھوٹکی، سندہ
  • تاریخ اشاعت: 26 فروری 2018ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

لفظ ’شیعہ‘ عربی زبان میں کسی فرد یا افراد کی دوسرے فرد یا افراد کے اتباع کرنے، کسی کی مدد و نصرت کرنے، یا قول و فعل میں اطاعت و پیروی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قاموس المحیط کے مطابق:

شیعة الرجل اتباعه و انصاره، الفرقة علی حدة و یقع علی الواحد و الاثنین و الجمع و المذکر و المونث.

کسی شخص کے شیعہ اس کے پیرو کار اور مددگار ہوتے ہیں۔ ایک جماعت یا فرقہ پر بھی شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ لفظ واحد، تثینہ، جمع، مذکر، مونث سب کے لئے ایک ہی صور ت میں استعمال ہوتا ہے۔

القاموس المحیط، 3: 48، کلمه شَاعَ.

ابن منظور نے اس سے مراد ہم خیال گروہ لیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

الشیعة: القوم الذین یجتمعون علی الامر و کل قوم اجتمعوا علی امر فهم شیعة، و کل قوم امرهم واحد یتبع بعضهم رأي بعض فهم شیعة.

شیعہ: ایسی جماعت جو کسی معاملے میں متفق ہو‘ ہر گروہ جو کسی امر پر اتفاق کر لے شیعہ کہلائے گا۔ ہر وہ گروہ جو ایک بات پر متفق ہو اور ان میں سے کچھ لوگ کچھ لوگوں کی رائے کی پیروی کریں وہ شیعہ ہیں۔

لسان العرب، 1: 55، کلمه شَیَعَ.

دیگر لغات میں بھی لفظِ شیعہ گروہ، پیروکار، جماعت، فرقہ، محب اور مددگار کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظ شیعہ انہی معنوں میں استعمال ہوا۔ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو جو قبطی سے جھگڑ اکررہا تھا قرآن نے اسے موسیٰ کا شیعہ کہا ہے کیونکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا فرد تھا:

وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَذَا مِنْ عَدُوِّهِ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ.

اور موسٰی (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے، تو انہوں نے اس میں دو مَردوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے) گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا، پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوں میں سے تھا۔

الْقَصَص، 28: 15

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت نوح علیہ السلام کی اتباع و پیروی کی وجہ سے ان کا شیعہ کہا ہے:

وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ. إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ.

بے شک ابراہیم (علیہ السلام) (بھی) اُن (نوح علیہ السلام) کی پیروی کر رہے تھے جب وہ اپنے رب کی بارگاہ میں قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہوئے۔

الصَّافَّات، 37: 83

قرآنِ مجید نے یہود و نصاریٰ کی گروپ بندی کو بھی اسی لفظ سے بیان کیا ہے:

مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ.

ان (یہود و نصارٰی) میں سے (بھی نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور وہ گروہ در گروہ ہو گئے، ہر گروہ اسی (ٹکڑے) پر اِتراتا ہے جو اس کے پاس ہے۔

الرُّوْم، 30: 32

یہ لفظ جب  پیروی کے معنوں میں استعمال ہو تو مثبت اور ایجابی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے اور جب تفرقہ و گروہ بندی کے معنوں میں استعمال ہو تو اس وقت منفی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اصطلاح میں شیعہ اس جماعت کو کہا جاتا جو امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی امامت بلا فصل کا اعتقاد رکھتی ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو جماعتِ صحابہ سے افضل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین سمجھتی ہے اور ان کا یقین ہے کہ امامت حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکریم کے فرزندوں میں نسل فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا میں جاری رہے گی اور ان کے علاوہ کسی اور کو امامت کا حق نہیں ہے۔ ابن خلدون لکھتے ہیں:

لغت میں شیعہ پیرو کار اور ساتھی کے معنی میں مستعمل ہے، عرف میں حضرت علی اور اولاد علی کی پیروی کرنے والے فقہاء اور متکلمین کو شیعہ کہا جاتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری