باجماعت نماز کے مقررہ اوقات کب سے رائج ہیں؟


سوال نمبر:4480
میرا سوال یہ ہے کہ باجماعت نماز کے اوقات کب مقرر ہوئے ہیں؟ کیا خلفائے راشدین کے دور میں یہ رواج پڑا یا اس کے بعد؟

  • سائل: اعجاز احمدمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 04 نومبر 2017ء

زمرہ: نمازِ باجماعت کے احکام و مسائل

جواب:

عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دورِ حاضر کی طرح جدید گھڑیاں موجود نہیں تھیں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ باجماعت نمازیں مقررہ اوقات کے مطابق نہیں ہوتیں تھیں۔ اس زمانہ میں بھی سورج، چاند اور ستاروں کی نقل وحرکت سے وقت کا اندازہ لگایا جاتا تھا اور اپنے معمولات ترتیب دیئے جاتے تھے، موسمی تغیرات کے باعث نماز کے اوقات میں تبدیلی کی جاتی تھی‘ لیکن کچھ کمی بیشی کے ساتھ شیڈول کے مطابق نمازیں ادا کی جاتی تھیں۔ حدیث مبارکہ میں حضرت سیار بن سلامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ والد ماجد عرض گزار ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض نماز کس طرح (یعنی کس کس وقت) پڑھا کرتے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

کَانَ یُصَلِّي الْهَجِیرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَی حِینَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ وَیُصَلِّي الْعَصْرَ ثُمَّ یَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَی رَحْلِهِ فِي أَقْصَی الْمَدِینَةِ وَالشَّمْسُ حَیَّةٌ وَنَسِیتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ وَکَانَ یَسْتَحِبُّ أَنْ یُؤَخِّرَ الْعِشَاءَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ وَکَانَ یَکْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِیثَ بَعْدَهَا وَکَانَ یَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِینَ یَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِیسَهُ وَیَقْرَأُ بِالسِّتِّینَ إِلَی الْمِائَةِ.

دوپہر کی نماز جس کو تم پہلی کہتے ہو، اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا اور نماز عصر پڑھتے تو ہم میں سے کوئی اپنے گھر مدینہ منورہ کے آخری کنارے تک جا کر لوٹ آتا اور سورج روشن ہوتا اور میں بھول گیا جو مغرب کے متعلق فرمایا ور عشاء کی نماز میں تاخیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے جس کو تم عتمہ کہتے ہو اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد (دنیاوی) باتیں کرنے کو نا پسند فرماتے اور صبح (فجر) کی نماز سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا اور اس (نماز) میں ساٹھ سے سو آیتیں تک پڑھتے۔

بخاري، الصحیح، 1: 201، رقم: 522، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے ہی نمازیں مقررہ اوقات کے مطابق ہو رہی ہیں۔ ہر دور میں جو بھی وقت معلوم کرنے کا آلہ یا طریقہ دستیاب تھا اس کو بروئے کا لاکر باجماعت نماز کے اوقات مقرر کیے جاتے رہے ہیں۔ جب سے جدید گھڑی ایجاد ہوئی ہے تب سے اس کی مدد لی جا رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ جدید گھڑی ایجاد ہونے کے بعد باجماعت نماز کے اوقات مقرر ہونا شروع ہوئے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری