نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہوتی ہیں اور اس کے پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟


سوال نمبر:442
نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہوتی ہیں اور اس کے پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟

  • سائل: کاشف اقبالمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 27 جنوری 2011ء

زمرہ: نماز وتر

جواب:

وتر کی تین رکعات ہوتی ہیں۔ وتر کے معنی طاق کے ہیں اور تین رکعات طاق عدد کو ظاہر کرتی ہیں جس کی بنا پر نمازِ وتر کو وتر کہتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ، کَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ.

دار قطنی، السنن، 2 : 27

’’دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں۔‘‘

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متفق علیہ حدیث ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وتر کی تین رکعات ہیں۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمان روایت کرتے ہیں :

أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رضی اﷲ عنها : کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا.

1. بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب قيام النبی صلی الله عليه وآله وسلم بالليل فی رمضان وغيره، 1 : 385، رقم : 1096
2. مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل وعدد رکعات النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 : 509، رقم : 738

’’انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تو ان کو ادا کرنے کی خوبصورتی اور لمبائی کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے تو ان کو ادا کرنے کی خوبصورتی اور لمبائی کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔‘‘

اِس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلے چار رکعت پڑھتے، اس کے بعد پھر چار رکعت پڑھتے اور پھر اس کے بعد دو پڑھتے اور پھر ایک (وتر) پڑھتے۔ یہ بلافصل تین رکعت وتر کی سب سے قوی دلیل ہے۔

نام وَر تابعی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَةً تُوتِرُ لَکَ مَا صَلَّيْتَ.

’’رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔‘‘

اِس کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں :

وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ.

بخاری، الصحيح، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، 1 : 337، رقم : 948

’’جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔‘‘

طریقہ

نمازِ عشاء کے فرض، سنتیں اور نوافل ادا کرنے کے بعد تین رکعت وتر واجب ادا کریں۔ نماز وتر کی نیت بھی عام نمازوں کی طرح ہے۔ وتر پڑھنے کا طریقہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی ہے جو نماز مغرب کا ہے۔ یعنی دو رکعت پر تشہد کے لیے بیٹھیں، اس کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جائیں، اور اس میں سورہ فاتحہ پڑھیں اور سورۃ ملانے کے بعد اَﷲُ اَکْبَر کہہ کر دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لَو تک اٹھا کر پھر باندھ لیں اور عورت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر سینے پر رکھے، اس کے بعد دعائے قنوت پڑھیں جو ان کلمات پر مشتمل ہے :

اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَلُّ عَلَيْکَ، وَنُثْنِی عَلَيْکَ الْخَيْرَ، وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَفْجُرُکَ. اَللّٰهُمَّ اِيَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ، وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ.

ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 95، رقم : 6893

’’اے اﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں، تیرا شکر کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے اﷲ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں، تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کی دو رکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔