سوال نمبر:4319
السلام علیکم! آج کل کمپیوٹر ہر جگہ استعمال ہوتا ہے۔ کمپیوٹر استعمال کرنے کے لئے ونڈو خریدنی پڑتی ہے جو 300 ڈالر کی ہے۔ پاکستانی روپے کے حساب سے یہ 30000 روپے بن جاتے ہیں‘ جو بہت کم پاکستانی آسانی سے دے سکیں گے۔ اس لئے ہمارے ملک میں یہ ونڈو ڈی۔وی۔ڈی میں کاپی کر کے صرف 50 روپے میں ہر جگہ کھلے عام بیچی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ڈی۔وی۔ڈی میں ایک اور سافٹ ویئر بھی ڈالا جاتا ہے جس کا نام ’ کی جینریٹر‘ ہے۔ اس کے ذریعے مائیکروسافٹ کمپنی کو پتا نہیں چلتا کہ ان کی تیار کردا ونڈوز کو 50 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے، یہ 50 روپے بھی مائیکروسافٹ کو نہیں جاتے، جو 300 ڈالرز کے حقدار ہیں۔ جن 300 ڈالرز پر ان کا حق ہے آج کل پاکستان میں انہیں کوئی نہیں دیتا۔ اسی طرح اور بھی کئی سافٹ ویئرز ہیں جو ہم پاکستانی اسی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اصل میں کوئی نہیں خریدتا، بس کی جینریٹر کے ذریعے اس کمپنی کو یقین دلایا جاتا ہے کہ میں نے فلاں سافٹ ویئر خرید لیا ہے، ظاہر ہے کہ انہوں نے گھر آکر تحقیق تو کرنی نہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ کیونکہ ایسا نہ کریں تو کمپیوٹر اور اس کے سوفٹویئرز تو ہماری پہنچ سے باہر ہو جایئں گے۔
- سائل: احمد حسانمقام: لاہور، پاکستان
- تاریخ اشاعت: 29 ستمبر 2017ء
جواب:
ہماری تحقیق کے مطابق پاکستان میں بھی کمپیوٹر سافٹ ویئرز کے کاپی رائٹس مختلف کمپنیوں کے پاس ہوتے ہیں۔ اس طرح سافٹ ویئر کاپی کرنا اور ان کو فروخت کرنا غیرقانونی ہے۔ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے خودساختہ ’کی جنریٹر‘ کے ذریعے سافٹ ویئر چورائے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا کاپی رائٹ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔