جواب:
کسی شخص کی وفات پر اس کے ترکہ میں سے کفن دفن کے بعد اس کے ذمے واجب الادا قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ لیکن جو لوگ قرض کا دعویٰ کریں ان کے پاس ثبوت ہونا ضروری ہے۔ بغیر ثبوت کے ان کا دعویٰ رد کر دیا جائے گا۔ اگر قرض ثابت ہو جائے تو ترکہ میں سے اولاً قرض ادا کیا جائے گا اس کے بعد اگر کچھ بچے گا تو ورثاء میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ اگر مرنے والے نے کوئی ترکہ یا وراثت نہیں چھوڑی تو ورثاء اس کے ذمے قرض ادا کریں گے۔ اگر ورثاء قرض ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو قرض خواہوں کی چاہیے کہ یا تو انہیں مہلت دیں یا قرض معاف کر دیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی اﷲ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)۔
البقرة، 2: 280
اگر ورثاء قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو قرض خواہوں کو انہیں جس قدر ممکن ہو مہلت دینی چاہیے، اگر قرض خواہ مرنے والے کے یتیم بچوں اور بیوہ کی کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے انہیں قرض معاف کردیں، یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دیں تو یہ بلاشبہ بہت بڑی نیکی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔