جواب:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَقْرَأَنِي جِبْرِيلُ عَلَی حَرْفٍ فَرَاجَعْتُهُ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِيدُهُ وَيَزِيدُنِي حَتَّی انْتَهَی إِلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ.
حضرت جبرئیل(علیہ السلام) نے مجھے ایک طریقے پر قرآن مجید پڑھایا۔ لیکن میں زیادہ طریقوں کا مطالبہ کرتا رہا، یہاں تک کہ سات قرأتوں تک اجازت مل گئی۔
اور ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن القاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کے اندر میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہما کو سورۂ الفرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ وہ کسی اور قرأت میں پڑھ رہے تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے اس قرأت میں نہیں پڑھی تھی۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی کے دوران میں ان پر ٹوٹ پڑتا لیکن سلام پھیرنے تک میں نے صبر سے کام لیا اور پھر میں نے اپنی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کہا: تمہیں اس طرح یہ سورت کس نے پڑھائی جس طرح میں نے تمہاری زبانی سنی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم نے جھوٹ بولا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تو اور طرح پڑھائی ہے، پھر میں انہیں کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور میں عرض گزار ہوا کہ جس طرح آپ نے سورۂ الفرقان مجھے سکھائی میں نے انہیں اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو اور اے ہشام! تم پڑھو۔ پھر انہوں نے سورۂ الفرقان اسی طرح پڑھی جس طرح میں نے ان کی زبانی سنی تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی ہے پھر فرمایا: اے عمر! تم پڑھو، تو میں نے اسی طرح پڑھی جس طرح آپ نے مجھے پڑھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ اور فرمایا:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُ وا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ.
بیشک قران کریم سات قرأتوں میں نازل فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا ان میں سے جو طریقہ جس کے لیے آسان ہو اسی طریقے سے پڑھا کرے۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ دیگر محدثین نے بھی نقل کی ہیں لیکن اختصار کی خاطر صحیحین کے حوالہ جات بیان کئے ہیں۔
ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں قرآنِ پاک کی سات قرأتیں مستند شمار کی جاتی ہیں، اور ان کے علاوہ تین مزید قرأتیں بھی مستعمل ہیں۔ ان کے علاوہ باقی تمام قرأتیں شاذ قرار دی گئی ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أن القاضي جلال الدين البلقيني قال القراءة تنقسم إلى متواتر وآحاد وشاذ فالمتواتر القراء ت السبعة المشهورة والآحاد قراء ت الثلاثة التي هي تمام العشر ويلحق بها قراءة الصحابة والشاذ قراءات التابعين كالأعمش ويحيى بن وثاب وابن جبير ونحوهم.
قاضی جلال الدین بلقینی کا بیان ہے کہ قرأت کی تقسیم متواتر، آحاد اور شاذ کی قسموں میں ہوتی ہے۔ متواتر سات مشہور قرأتوں کو کہتے ہیں اور آحاد اُن تین قرأتوں کا نام ہے جن کو ملا کر دس قرأتیں پوری ہوتی ہیں اور صحابہ کرام کی قرأتیں ان قسموں کے ساتھ ملحق کی جاتی ہیں اور شاذ تابعین کی قرأت کو کہا جاتا ہے۔ مثلا اعمش، یحییٰ بن وثاب اور ابن جبیر وغیرہ کی قرأتیں۔
وهذا الكلام فيه نظر يعرف مما سنذكره وأحسن من تكلم في هذا النوع إمام القراء في زمانه شيخ شيوخنا أبو الخير بن الجزري قال في أول كتابه النشر كل قراءة وافقت العربية ولو بوجه ووافقت أحد المصاحف العثمانية ولو احتمالا وصح سندها فهي القراءة الصحيحة التي لا يجوز ردها ولا يحل إنكارها بل هي من الأحرف السبعة التي نزل بها القرآن ووجب على الناس قبولها سواء كانت عن الأئمة السبعة أم عن العشرة أم عن غيرهم من الأئمة المقبولين ومتى اختل ركن من هذه الأركان الثلاثة أطلق عليها ضعيفة أو شاذة أو باطلة سواء كانت عن السبعة أم عمن هو أكبر منهم هذا هو الصحيح عند أئمة التحقيق من السلف والخلف صرح بذلك الداني ومكي والمهدوي وأبو شامة وهو مذهب السلف الذي لا يعرف عن أحد منهم خلافه۔
امام جلال الدین سیوطی مزید فرماتے ہیں:
اور اس بیان میں ایک قسم کا اعتراض وارد ہوتا ہے جس کی توضیح اگلے بیان سے خود بخود ہو جائے گی۔ اس نوع میں سب سے بہتر کلام اپنے زمانہ کے امام القراء اور ہمارے استاذ ابو الخیر بن الجزری نے کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب النشر کے آغاز میں لکھتے ہیں: ہر ایک ایسی قرأت جو کسی وجہ سے بھی عربی زبان دانی کے موافق ہو اور مصاحف عثمانیہ مین سے کسی مصحف کے ساتھ خواہ احتمالی طور بھی مطابق ہو۔ پھر اُس کی سند صحیح ثابت ہو تو ایسی قرأت انہی حروف سبعہ میں شامل ہو گی جن پر قرآن کا نزول ہوا ہے اور لوگوں پر اُس کا قبول کرنا واجب ہو گا۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ قرأت ساتوں یا دس اماموں کی طرف مروی ہوئی ہے یا ان کے ماسواء دوسرے مقبول اماموں کی جانب سے ۔ مگر جس وقت ان تینوں مذکور ہ بالا ارکان میں سے کوئی رکن بھی مختل ہو گا تو اُس قرأت کو شاذ، ضعیف یا باطل قرأت کہا جائے گا خواہ اُس کے راوی اَئمہ سبعہ ہوں یا اُن کے ماسواء دوسرے امام جو اُن سے بھی بڑھ کر اور بہتر ہیں سلف سے لے کر خلف جتنے صاحب تحقیق امام ہوئے ہیں اُنہوں نے اسی بات کو صحیح مانا ہے۔ الدانی، مکی، المہدوی اور ابو شامۃ نے اسی بات کی تصریح ہے اور یہی سلف کا بھی مذہب ہے اور اُن میں سے کوئی اس کے خلاف معلوم نہیں ہوتا۔
السيوطي، الإتقان في علوم القرآن، 1: 203، بيروت، لبنان: دار الفكر
مشہور قراء جن سے روایت کی جاتی ہے، ان کے نام درج ذیل ہیں:
مذکورہ بالا قراء سبعہ کے علاوہ بھی تین قراء سے روایت کی جاتی ہے:
مشہور قرأتوں میں سے آپ کسی کی بھی روایت کے مطابق پڑھ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔