کیا خواتین کا محرم کے بغیر ہاسٹل میں رہنا جائز ہے؟


سوال نمبر:4070
السلام علیکم مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ کیا دینی تعلیم کے حصول کے لیے لڑکیوں‌ کا گھر سے دور مدرسے کے ہاسٹل میں رہنا ٹھیک ہے؟ جو اسلام حج کے مقدس سفر کے لیے بھی عورت کو اکیلے جانے کی اجازت نہیں‌ دیتا وہ اسے گھر بغیر محرم کے سالوں تک گھر سے دور رہنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ اگر مدرسے کے ہاسٹل میں رہنا جائز ہے تو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنا ناجائز کیسے ہے؟ براہِ مہربانی تسلی بخش جواب دیں۔ شکریہ

  • سائل: فاطمہ جٹمقام: سیڈنی، آسٹریلیا
  • تاریخ اشاعت: 27 دسمبر 2016ء

زمرہ: عورت کے احکام  |  جدید فقہی مسائل

جواب:

سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہو کہ اسلام علم ومعرفت اور شعور وآگہی کا دین ہے کسی قیمت پر بھی جہالت وناخواندگی کو پسند نہیں کرتا لہٰذا اسلام بلا تفریق مرد وزن ہر ایک کی تعلیم وتربیت کا قائل ہے۔ اگر کوئی اسلام کو خواتین کی تعلیم وتربیت میں رکاوٹ بنا کر پیش کرے تو یہ اس کی لا علمی ضرور ہو سکتی ہے لیکن قرآن وحدیث میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر لڑکیوں کو قدیم وجدید تعلیم وتربیت سے محروم رکھا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا يَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِo

فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔ بس نصیحت تو عقلمند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔

الزمر، 39: 9

اس آیت مبارکہ میں اہل علم کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی فوقیت علم والے کو ہی ہے وہ چاہے مرد ہو یا عورت کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ اور احادیث مبارکہ میں عورتوں کو تعلیم دینے کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو درج ذیل ہیں:

عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: مَنْ کَانَتْ لَهُ ابْنَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيْمَهَا، وَأَوْسَعَ عَلَيْهَا مِنْ نِعَمِ اﷲِ الَّتِي أَسْبَغَ عَلَيْهِ، کَانَتْ لَهُ مَنَعَةً وَسُتْرَةً مِنَ النَّارِ.

حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس کی بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اﷲ نے اس کو دیئے ہیں تو وہ بیٹی اس کے لئے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی۔

  1. طبراني، المعجم الکبير، 10: 197، رقم: 10447، الموصل: مکتبة الزهراء
  2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8: 158، بيروت، القاهرة: دار الکتاب

حضرت عطاء بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں یا عطاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر گواہی دیتا ہوں۔

أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ وَبِلَالٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ.

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال فرمایا کہ عورتوں نے خطبہ نہیں سنا۔ لہٰذا انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کا حکم دیا تو کوئی بالی اور کوئی انگوٹھی ڈالنے لگی جنہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے پلو میں لینے لگے۔

بخاري، الصحيح، 1: 49، رقم: 98، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

معلوم ہوا مجلس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عورتیں بھی موجود تھیں لیکن کسی وجہ سے وہ وعظ ونصیحت نہ سن سکیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو باہر آ کر الگ وعظ فرمایا تو عورتوں نے اپنے زیورات صدقہ کر دیئے۔ اگلی حدیث مبارکہ میں باندی کو تعلیم دلانے کا دوگنا اجر وثواب بیان فرمایا ہے:

عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ کَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ...الخ

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس کوئی باندی ہو پھر وہ اسے مودب بنائے اور تعلیم دلائے، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اس کے لیے دوگنا ثواب ہے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 414، رقم: 19727، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. نسائي، السنن، 3: 312، رقم: 5502، بيروت: دار الکتب العلمية
  3. ابن ماجه، السنن، 1: 629، رقم: 1956، بيروت: دار الفکر

جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باندی کی تعلیم کے لئے دوگنا اجر فرمایا ہے تو پھر اپنی حقیقی بیٹی کی تعلیم سے منع کیسے کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ حقیقی بیٹی کی تعلیم وتربیت کرنا بدرجہ اولیٰ بہتر عمل ہے۔ درج ذیل حدیث مبا رکہ میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی، بلا تفریق فرمایا بہتر وہ ہی ہے جو قرآن کی تعلیم دے:

عَنْ عُثْمَانَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيّ صلی الله عليه وآله وسلم وسلم قَالَ خَيْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے۔

  1. بخاري، الصحيح، 4: 1919، رقم: 4739
  2. أبي داؤد، السنن، 2: 70، رقم: 1452
  3. ترمذي، السنن، 5: 173، رقم: 2907، بيروت: دار احياء التراث العربي

آقا علیہ السلام کی زندگی ہمارے لئے کامل نمونہ حیات ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُو اﷲَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِيْرًاo

فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔

الاحزاب، 33: 21

تو جب آقا علیہ السلام ہمارے لیے بہترین نمونہ حیات ہیں تو پھر ہمیں عورتوں کی تعلیم وتربیت کے معاملہ میں بھی آپ علیہ السلام کی پیروی کرنی چاہیے۔ آپ علیہ السلام نے تو عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے دن مقرر فرمایا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِیدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَتْ النِّسَائُ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم غَلَبَنَا عَلَيْکَ الرِّجَالُ فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ فَکَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ مَا مِنْکُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلَاثَةً مِنْ وَلَدِهَا إِلَّا کَانَ لَهَا حِجَابًا مِنْ النَّارِ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ وَاثْنَتَيْنِ فَقَالَ وَاثْنَتَيْنِ..

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے۔ لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز کا وعدہ فرما لیا۔ ان سے ملے چنانچہ نصیحت فرمائی اور اوامر بتائے، ان کے ساتھ ہی ان سے فرمایا: تم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جو اپنے تین بچے آگے بھیجے مگر وہ اس کے لیے جہنم سے آڑ ہو جائیں گے۔ ایک عورت عرض گزار ہوئی کہ دو بچے؟ فرمایا کہ دو بچے بھی۔

  1. بخاري، الصحيح، 1: 50، رقم: 101
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 34، رقم: 11314
  3. ابن حبان، الصحيح، 3: 206، رقم: 2944، بيروت: مؤسسة الرسالة

ذیل میں بیان کردہ حدیث مبارکہ میں بھی مسلمان میں مرد وزن شامل ہیں نہ کہ صرف مسلمان مردوں کے لئے حکم صادر فرمایا ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

(امام طبرانی نے یہ حدیث عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے)

  1. ابن ماجه، السنن، 1: 81، رقم: 224
  2. أبو يعلی، المسند، 5: 223، رقم: 2837، دمشق: دار المأمون للتراث
  3. طبراني، المعجم الکبير، 10: 195، رقم: 10439

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مردوں کی طرح عورتیں بھی تعلیم حاصل کرنے کا مکمل حق رکھتی ہیں۔ لڑکیوں کے لئے دینی تعلیم جائز ہونا اور کالج ویونیورسٹی کی تعلیم جائز نہ ہونا یہ اسلام کا تصور تعلیم نہیں ہے، اسلام میں تو سرے سے دینی ودنیاوی تعلیم کی کوئی تقسیم بندی ہی نہیں ہے۔ بلکہ 1780 ء میں برصغیر پر انگریز کے مسلط ہونے سے پہلے دنیا بھر میں کسی جگہ دینی ودنیاوی تعلیم میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ تمام مدارس میں ہر قسم کے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر جنگی قیدیوں کو فدیہ کی بجائے مدینہ منورہ کے مسلمان بچوں کو جو تعلیم دینے کی آپشن دی تھی وہ عصری علوم کی ہی تعلیم تھی نہ کہ قرآن وحدیث کی تعلیم تھی۔ عظیم مؤرخ اور سیرت نگار محمد بن سعد روایت کرتے ہیں:

جب غزوہ بدر کے موقع پر ستر (70) کافر قیدی ہوئے تو چار ہزار درہم ان کی رہائی کے لئے رقم مختص کی گئی کہ جو شخص چار ہزار درہم دے، اس کو آزاد کر دیا جائے گا۔ خواہ مکہ کی ریاست ادا کر دے یا وہ خود اپنے پاس سے ادا کر دے۔ ریاست مدینہ اس وقت مالی لحاظ سے کمزور تھی، وسائل کی ضرورت تھی، ستر قیدی تھے، چار ہزار درہم فی کس سے ایک معقول رقم آتی تھی مگر اتنی معقول رقم کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم اور تعلیم کی اہمیت واضح کرنے کے لئے اعلان فرمایا کہ چار ہزار درہم ہر جنگی قیدی کی رہائی کا زر فدیہ ہے مگر جو جنگی قیدی میری ریاست مدینہ کے دس دس بچوں کو تعلیم دے دے، اُسے بغیر زر فدیہ آزاد کر دیا جائے گا۔

ابن سعد، الطبقات الکبری، 2: 22، بيروت: دار صادر

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم وتربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم وتربیت نظرانداز کر دے۔ جس طرح معاشرے میں مردوں کی تعلیم وتربیت کی ضرورت ہے اسی طرح ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے کے لئے عورتوں کی تعلیم وتربیت بھی بہت اہم ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں عورتیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ان کو جدید وقدیم تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا جائے گا۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی عورتیں ممکنہ حد تک ہر محاذ پر مردوں کی مدد کے لئے شامل ہوتی تھیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ الْأَنْصَارِيَةِ قَالَتْ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ وَأُدَاوِي الْجَرْحَی وَأَقُومُ عَلَی الْمَرْضَی.

حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات جہاد کیے میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی۔ ان کے لئے کھانا بناتی تھی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی۔

  1. مسلم، الصحيح، 3: 1447، رقم: 1812
  2. ابن ماجه، السنن، 2: 952، رقم: 2856

عَنْ رُبَيِّعَ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ قَالَتْ کُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نَسْقِي الْقَوْمَ وَنَخْدُمُهُمْ وَنَرُدُّ الْقَتْلَی وَالْجَرْحَی إِلَی الْمَدِينَةِ.

حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ شریک جہاد ہوتی تھیں۔ ہم (مسلمان) مجاہدین کو پانی پلاتیں، ان کی خدمت کرتیں نیز شہیدوں اور زخمیوں کو مدینہ منورہ پہنچاتی تھیں۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2151، رقم: 5355
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 358، رقم: 27062

آج بھی میڈیکل میں نرسنگ، گائنی اور خواتین سے متعلق دیگر شعبہ جات میں لیڈی ڈاکٹرز کی بہت ضرورت ہے تاکہ عام حالات یا ہنگامی صورت میں خواتین اہم کردار ادا کر سکیں۔ اسی طرح خواتین سے تعلق رکھنے والے دوسرے شعبہ جات میں بھی خواتین کو ذمہ داریاں تفویض کرنے سے پہلے ان کی ہر سطح پر تعلیم وتربیت ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اسلام لڑکیوں کو دینی وعصری علوم سیکھانے کا قائل ہے، ہر طرح کی جدید وقدیم تعلیم حاصل کرنے کا حق دیتا ہے اور کالج ویونیورسٹی کی تعلیم کے لئے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

لڑکیوں کا ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا:

اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ لڑکیوں کا محرم کے بغیر ہاسٹل میں رہ کر سالوں تک تعلیم حاصل کرنا جائز کیسے؟ جبکہ بغیر محرم حج پر جانا تو جائز نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے سے پہلے نفس مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَةَ أَيَامٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت تین دن کا سفر نہ کرے مگر اپنے محرم کے ساتھ۔

  1. بخاري، الصحيح، 1: 368، رقم: 1036
  2. مسلم، الصحيح، 2: 975، رقم: 1338

بعض روایات میں دو دن، ایک دن ایک رات، صرف ایک دن، آدھا دن اور مطلقاً سفر کا بھی ذکر آیا ہے۔ لیکن نفس مسئلہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سفر بہت کٹھن اور پرخطر ہوتے تھے۔ زیادہ تر سفر پیدل یا گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا تھا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں کئی کئی ہفتے اور مہینے صرف ہوتے تھے۔ اور جنگلوں، بیابانوں اور دشوار راستوں سے گزر ہوتا تھا۔ نیز دورانِ سفر چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفری تکالیف اور خطرات کے باعث عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع فرمایا تاکہ اُس کی عفت وعصمت کی حفاظت ہو۔ دوسری طرف ایک حدیث مبارکہ میں یہ بھی ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا، دیکھا تو نہیں لیکن سنا ضرور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اﷲَ.

اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم ضرور دیکھ لوگے کہ ایک بڑھیا حیرہ سے چلے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اسے خدا کے سوا کسی دوسرے کا خوف نہیں ہوگا۔

پھر حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ حَتَّی تَطُوفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اﷲَ.

میں نے دیکھ لیا کہ ایک بڑھیا نے حیرہ سے چل کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہ تھا۔

  1. بخاري، الصحيح، 3: 1316، رقم: 3400
  2. بيهقي، السنن الکبری، 5: 225، رقم: 9911، مکه المکرمة: مکتبه دار الباز

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ امن وامان قائم ہونے پر بڑھیا کا اکیلی سفر کرنے کے بارے میں ہے یعنی اس وقت عفت وعصمت محفوظ ہو چکی تھی۔ اور سفر میں عورت کا محرم ساتھ ہونے کی شرط لگانے کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ وہ دکھ درد میں اس کی دیکھ بھال کرے اور عزت کا خیال رکھے۔ لہٰذا ہمیں اس عِلّت اور پس منظر کو مدِنظر رکھنا چاہیے جس کی بنا عورت کو محرم کے بغیر مطلقاً سفر یا سفر حج پر جانے سے منع کیا گیا تھا۔ آج ذرائع مواصلات بہت ترقی کر گئے ہیں۔ بے شمار سفری سہولیات وآسانیاں میسر آچکی ہیں۔ دوران سفر سکیورٹی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں رہے اور حج کی ادائیگی کا باقاعدہ نظام ترقی پا چکا ہے۔ حکومتی سطح پر گروپ تشکیل دیئے جاتے ہیں جو محرم کی طرح ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور خواتین کو اُس طرح کے مسائل وخطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پرانے وقتوں میں درپیش ہوتے تھے گویا ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی اور سیفٹی محرم بن گئے ہیں کیونکہ حکمِ مَحرم کی حکمت یہی تھی۔ لہٰذا اِن سفری سہولیات کے ساتھ جب عورت عورتوں کے باعتماد گروپ میں جہاں مردوخواتین اور فیملیز اکٹھی ہوں اور خواتین کی کثرت ہو تو یہ اجتماعیت محرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ ان حالات میں عورت محرم کے بغیر عام سفر بھی کر سکتی ہے اور حج پر بھی جا سکتی ہے۔

اسلام نے مردوں اور عورتوں کو شرم وحیاء اور اپنی عزت کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَهُمْ ط اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌم بِمَا يَصْنَعُوْنَ.

آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔

النور،24: 30

اسی طرح عورتوں کے لئے حکم ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُيُوْبِهِنَّص وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ.

اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دو پٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بنائو سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں۔

النور،24: 31

اور حدیث مبارکہ میں شرم وحیاء کا خیال رکھنے کی اہمیت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی گئی ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ، قَالَ: رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرم وحیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 442، رقم: 9708
  2. نسائي، السنن، 6: 532، رقم: 11737
  3. عبد الرزاق، المصنف، 5: 212، رقم: 25341، بيروت: المکتب الاسلامي

لہٰذا مدرسہ ہو یا کالج ویونیورسٹی، اگر ادارے کی انتظامیہ لڑکیوں کی عزت وعصمت کا خیال رکھے اور اُن کی حفاظت کی ضمانت دے تو لڑکیاں محرم کے بغیر بھی ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ اگر لڑکیوں کی عزت وناموس محفوظ نہ ہو خواہ وہ دینی مدرسہ کا ہی ہاسٹل کیوں نہ ہو، وہاں بھی لڑکیوں کا رہنا جائز نہیں ہے۔ اسلام کا اصل مقصد مال وجان اور عزت وآبرو کی حفاظت ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری