اگر کوئی اسلام کے صریح حکم کی خلاف ورزی پر بضد ہے تو اس کے ایمان کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4051
السلام علیکم! ایک عورت ننگے سر باہر نکلتی ہے اور جب اس کو کہا جاتا کہ اس طرح باہر نکلنا حرام ہے تو وہ نہیں مانتی اور کہتی ہے کہ یہی طریقہ صحیح ہے میں تو اسی طرح ہی کروں گی۔ اس عورت کے ایمان کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

  • سائل: سجاد احمدمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 09 دسمبر 2016ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ.

(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔

النَّحْل، 16: 125

مذکورہ بالا آیت میں دعوت الی اللہ کا جو طریقہ کار بتایا گیا ہے اس کا اصول حکمت اور احسن انداز ہے۔ایک مسلمان کو جب حسنِ اخلاق اور اچھے انداز سے حکم الٰہی سے آگاہ کیا جاتا ہے تو وہ ضرور غور و فکر کرتا ہے اور آہستہ آہستہ راہِ خدا کی طرف آ جاتا ہے۔ دین اور احکامِ دین کی طرف دعوت دینے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اپنا مدعا اس حکمت کے ساتھ پیش کرے کہ بات مخاطب کے قلب و باطن میں گھر کر جائے اور اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر اسے اللہ کے دین کی طرف لے آئے۔ ہمارا فریضہ بس حکمِ خدا پہنچانے تک ہے۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے:

وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.

اور واضح طور پر پیغام پہنچا دینے کے سوا ہم پر کچھ لازم نہیں ہے۔

يٰس، 36: 17

لہٰذا مذکورہ عورت کو احسن انداز میں اسلام کی تعلیمات اور پردے کے احکام سے آگاہ کیا جائے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ بےجا فتوے بازی اسے چڑچڑا بنا کر اسلام سے متنفر کر دے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری