جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَO
پس آپ اپنا رخ اﷲ کی اطاعت کے لئے کامل یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں۔ اﷲ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)، اﷲ کی پیدا کردہ (سرِشت) میں تبدیلی نہیں ہوگی، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے۔
الرُّوْم، 30: 30
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور یہ وقت کے ساتھ رونماء ہونے والی تبدیلیوں میں بھی قابلِ عمل رہتا ہے۔ یہ نئی ایجادات کو بھی قبول کرتا ہے اور اپنی متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے ان کے استعمال کا حکم بھی لگاتا ہے۔ اس لیے نئی ایجادات کے منفی و مثبت پہلوؤں پر غور کیے بنا ان کو فوراً حرام قرار دینا اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی ہے۔ جس طرح ہم اچھائی اور برائی میں اختیار رکھتے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ، ٹیلیفون اور ٹیلیویژن کے بھی کے غلط اور صحیح استعمال ہمارے کنٹرول میں ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًاO
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے۔
الْكَهْف، 18: 29
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِO وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِO وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔
الْبَلَد، 90: 8 تا 10
اس لیے انٹرنیٹ، ٹیلیویژن، ٹیلیفون اور اسی طرح کی دیگر ایجادات جو اب انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں، ان کا استعمال ہم پر منحصر ہے۔ اگر انہیں جائز کاموں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو بلاشبہ یہ جائز ہیں اور اگر ان سے گناہ کا سامان کیا جا رہا ہے تو پھر ناجائز اور ممنوع ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔