جواب:
کسی بھی شے کو حرام قرار دینے کے لیے قطعی و واضح دلیل درکار ہوتی ہے، قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ سے کم درجے کی روایت سے حلت و حرمت کا حکم ثابت نہیں ہوتا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ.
فرما دیجئے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو) اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ تم اﷲ کا شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور (مزید) یہ کہ تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔
الْأَعْرَاف، 7: 33
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ حرام اشیاء کی فہرست فراہم کی ہے جس میں سرِفہرست بےحیائی و فحاشی ہے۔ گویا کوئی بھی شے جب انسان کو بےحیائی اور فحاشی کی طرف لے جانے کا باعث بن رہی ہو تو وہ حرام ہوجاتی ہے۔
انٹر نیٹ، موبائل اور کمپیوٹر پر کھیلی جانے والی گیمز کی حلت و حرمت کا فیصلہ کھیل کے فیچرز سے ہوگا۔ اگر کھیل بےحیائی و فحاشی پر مشتمل ہے یا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے یا فرائض میں غفلت کا باعث بن رہا ہے تو اس کا کھیلنا ناجائز اور حرام ہے۔ اگر کھیل اسلامی تمدن، علاقائی ثقافت اور ذہنی نشونما پر مبنی، نئے علوم سیکھنے میں مددگار ہو تو جائز و مباح ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔