قربانی کے وجوب میں‌ کیا فلسفہ کارفرما ہے؟


سوال نمبر:4018
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قربانی میں گوشت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کا فلسفہ بیان فرمائیں۔

  • سائل: خان محمود بھٹیمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 03 ستمبر 2016ء

زمرہ: قربانی کے احکام و مسائل

جواب:

’’قربانی‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’قُرب‘‘ سے ہے، جس کا مطلب ’’کسی شے کے نزدیک ہونا‘‘ ہے۔ ’’قُرب‘‘، دوری کا متضاد ہے۔ ’قربان‘ ’قرب‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ امام راغب اصفحانی قربانی کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

القربان مايتقرب به الی الله وصارفي التعارف اسماً للنسيکة التي هي الذبيحة.

قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، شرع میں یہ قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔

المفردات للراغب، 408، طبع مصر

قربانی کے لئے قرآن کریم میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

  1. قربانی

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.

(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اﷲ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔

الْمَآئِدَة، 5: 27

  1. منسک

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ.

اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔

الْحَجّ، 22: 34

  1. نحر

اِنَّآ اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرْO فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُO

بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے)۔ بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔

الْکَوْثَر، 108: 1 تا 3

قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم پر قربانی لازم کی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہر امت پر نماز و روزہ فرض فرمائے۔

ہر انسان کو بڑی بڑ ی تین نعمتیں ملی ہیں: (1) جان کی نعمت، اس کا شکریہ یہ ہے کہ اپنی تمام صلاحیتوں کو اطاعت خداوندی میں استعمال کیا جائے۔ ہاتھ پاؤں زبان اوردماغ سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچایا جائے۔ (2) مال کی نعمت، اس کا شکر یہ ہے کہ حلال و جائز ذرائع سے مال حاصل کیا جائے، اللہ کی رضا کے لئے غریبوں ناداروں یتیموں اور حاجت مندوں کی ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں اسے خرچ کیا جائے۔ مال میں و ہ پالتو جانور بھی شامل ہیں جو قدرت نے ہمارے لئے مسخر فرمائے ہیں۔ جن سے ہمیں اون، کھال، دودھ اور گوشت حاصل ہوتا ہے ان سے ہم سواری و باربرداری کا کام لیتے ہیں۔ ان کے ایک ایک عضو سے ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان شکر، یہ ہے کہ ہم ان منافع میں ان کو شریک کریں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ سوار و بار برداری کی سہولتوں سے ان کو بھی بہرہ مند کریں۔ ذبح کریں تو ان کا گوشت دوسروں کو بھی دیں۔ دودھ جیسے نعمت حاصل ہو تو حسب توفیق ناداروں کو ان کا حصہ ادا کریں۔ ان جانوروں کے ذریعے جوئے جیسا حرام کاروبار نہ چلائیں۔ ان کو آپس میں لڑا لڑا کر لہولہان نہ کریں۔ صرف اللہ کے نام پر ذبح کریں۔ کسی اور کے نام پر ذبح نہ کریں قربانی دم تمتع، دم احصار، ہدی، نذر اور دم جنایت کے طو رپر جو جانور ذبح کرو۔ اسے ان تلوثیات سے پاک رکھو، جن سے دور جاہلیت کے مشرک اسے ملوث کرتے تھے کہ جانور ذبح کیا اس کا خون کعبے کی دیواروں پر لتھیڑ دیا بتوں کے آستانوں پر لگادیا اور گوشت ضائع کردیا۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ، دوسروں کو بھی کھلاؤ، غریب ہو یا امیر سبھی کھاسکتے ہیں۔ (3) علم کی نعمت، علم مفید حاصل کریں یہ آپ کا پیدائشی حق بھی ہے اور آپ پر فرض بھی۔ اس کی قربانی یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ اس کو دوسروں تک پہنچائیں اور کوئی علمی بات کسی سے نہ چھپائیں، نہ لالچ سے نہ کسی کے ڈر سے۔

ظاہر ہوا کہ قربانی مسلمانوں پر حسب توفیق لازم ہے۔ سورۃ کوثر میں نماز قربانی کو ایک ساتھ جمع ہونا اس بات کا غماز ہے کہ جس طرح نماز اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقرر پر لازم ہے اسی طرح قربانی بھی اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقررہ پر لازم ہے جیسے نماز کسی خاص مقام کے ساتھ مقید نہیں ہر جگہ کے لئے عام ہے اسی طرح قربانی بھی کسی مخصوص جگہ کے لئے نہیں ہر جگہ کے مسلمانوں کے لئے حکم شرعی ہے۔

امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ هَراقَةِ الدَّمِواِنَّه لَيَاْتِیْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَّقَعَ علی الارض فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا.

’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

(سنن ابن ماجه، جلد2، باب ثواب الاضحيه، رقم : 1045)

پس جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے اس قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے۔

مشکوٰة، ص 128 باب الاضحية

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

ضَحیّٰ رَسُوْلُ اللّٰه صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَيْنِ اَمْلَحَيْنِ اَقْرَنَيْنِ زَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَسَمّٰی وَکَبَّر قَالَ رَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صَفَا حِهِمَا وَيَقُوْلُ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ.

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں، میں نے حضور کو ان کے پہلوئوں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر۔

مشکوة ص 127

اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے میں حکمت یہ ہے کہ عمل قربانی میں انسان کی اپنی دلچسپی ہو۔ اگر آپ نے قربانی کا جانور قصاب کے حوالے کر دیا اور خود کسی اور کام میں مصروف ہوگئے تو اس طرح سے قربانی ہو جاتی ہے لیکن اس میں اس دلچسپی کا مظاہرہ نہ ہو سکا جتنی دلچسپی کا اظہار خون گراتے وقت ظاہر ہونی تھی کیونکہ قربانی کا فلسفہ محض جانور ذبح کر دینا اور گوشت تقسیم کرنا نہ تھا بلکہ ہاتھ سے اس جانور کا خون بہانا تھا اور اگر خون بہانے کا کام جب انسان نے اپنے ہاتھ سے نہ کیا تو عمل قربانی میں حسن نیت اپنے کمال کو نہ پہنچی۔ اس لئے سنت یہ ہے کہ قربانی اپنے ہاتھ سے کی جائے۔

امام مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا۔ جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اورسیاہی میں دیکھتا ہو یعنی اس کے پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں، وہ قربانی کے لئے حاضر کیا گیا۔ فرمایا عائشہ! چھری لائو، پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کرو میں نے تیز کردی پھر آپ نے چھری پکڑی، مینڈھا لٹایا، اسے ذبح کیا پھر فرمایا۔

بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ

الہی محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما۔

مشکوة، 127

قربانی میں مقصود گوشت نہیں ہوتا بلکہ قربانی کے عمل کی روح صرف چُھری چلا کر بسم اللہ، اللہ اکبر کہتے ہوئے اللہ کے نام پر خون بہا دینا ہے۔ پس اس خون کے قطرے کے گرانے کو قربانی کہتے ہیں جبکہ گوشت کی تقسیم کا معاملہ، عام صدقے کی طرح ایک صدقہ ہے۔ جس طرح آپ اس قربانی کے علاوہ غرباء میں گوشت تقسیم کرتے رہتے ہیں۔

نیز یہ بھی کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کا ایک سنت طریقہ ہے کہ اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک غرباء کے لئے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے اور ایک حصہ اپنے لئے لیکن اگر اپنی فیملی کے احباب زیادہ ہوں تو خود دو حصے بھی رکھ سکتے ہیں اور اگر دو حصے بھی کفایت نہ کریں تو سارے کا سارا گوشت خود بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کا مقصود صرف گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ مقصودِ قربانی اللہ کی رضا کے لئے اس کے نام پر خون بہانا ہے۔ مقصود گوشت کی تقسیم نہیں، اگر مقصود گوشت کی تقسیم ہوتی تو یہ عمل تو سال بھر ہوتا رہتا ہے۔ لیکن عیدالاضحی جس سبب سے اس عید کو عید قربان کرتی ہے وہ گوشت کی تقسیم کے سبب سے نہیں، بلکہ اللہ کی رضا کے لئے اس خون کو گرانے کے عمل سے بندے کو اللہ کا قرب عطا کرتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے جان کے نذرانے کی علامت کے طور پر خون گرایا جاتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی