جواب:
اسلامی معیشت ایک متوازن و مفرح طرز حیات ہے۔ یہ ایک ایسا منظم لائحہ عمل ہے جس میں حقوق و فرائض کا حسین امتزاج کارفرما ہے۔ معقول اور منصفانہ ٹیکسوں کا نظام بھی اسلامی معیشت کا ایک تعمیری پہلو ہے۔ زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ اسلام میں حکومت کے ٹیکسز کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے، جیسے:
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے یا کسی اور نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زکوٰۃ کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان فی المال لحقا سوی الزکاة ثم تلا هذه الآية التی فی البقرة (لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ) الآية.
مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے، پھر آپ نے سورۃ بقرہ کی آیت (نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں) تلاوت فرمائی۔
ترمذی، السنن، 3: 48، رقم: 659، دار احياء التراث العربی بيروت
دار قطنی، السنن، 2: 125، رقم: 11، دار المعرفة بيروت
درج بالا حدیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ عمرانی معاہدے کے مطابق ریاستی نظام برقرار رکھنے، دفاع اور دیگر امور سلطنت پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے منصفانہ ٹیکس لگانا جائز ہے۔ لیکن ٹیکس ظالمانہ نہیں، منصفانہ ہونا چاہیے۔
ٹیکسز کا مروجہ نظام غیرمصفانہ ہے۔ انکم ٹیکس کے علاوہ تمام بالواسطہ ٹیکسز ہر امیر و غریب پر لگائے جاتے ہیں اور انکم ٹیکس میں اگر چہ آمدنی تو ملحوظ ہوتی ہے مگر اس شخص کے مصارف ملحوظ نہیں رکھے جاتے۔ اسی طرح جائیداد ٹیکس ہر صاحب جائیداد سے بہرحال لازما وصول کیا جاتا ہے، اگرچہ اس کا ذریعہ آمدن کچھ بھی نہ ہو۔ ٹیکس کی تشخیص کا یہ طریقہ صریح ظلم اور حرام ہے۔
اسی طرح ریاستی فلاح و بہبود کے نام پر حکمران غیرملکی بینکوں سے قرضے لیتے ہیں اور انہیں سود سمیت واپس کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس عائد کرتے ہیں جو سراسر ظلم اور ناجائز ہے۔ ایسی صورتحال میں عام آدمی کو ایسے ظالمانہ طرزِ حکومت کی تبدیلی کی کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔