جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعًاo
’’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘
العاديت، 100: 4
جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گرد وغبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی شان کیا ہو گی۔ ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقینا شامل ہیں۔ لہٰذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں:
وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاج.
اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘‘
المومن، 40: 7
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ صفین ہوئی جس کا سبب بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا، اس زمانہ میں ممکن نہ تھا، جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہو جانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں باہمی جنگیں ہوئیں جسمیں مسلمانوں کو ایک طرف تو ناقابلِ بیان جانی و مالی نقصان ہوا، دوسری طرف ان کی ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور تیسری طرف وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے، یکدم رک گئے۔
یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔ کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ تو درست ہے اور نہ ہی انصاف ہے۔ اس مسئلہ میں وہ لوگ بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور وہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان و عظمت میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہمارے نزدیک اﷲ تعالیٰ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین، آئمہ کرام، اولیائے عظام اور علماء و اہل اسلام کا ادب واحترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ہونے والے باہمی نزاعات سے متعلق اہل سنت کے مؤقف کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: مشاجرات صحابہ میں اہلِ سنت کا کیا مؤقف ہے؟
بنو امیہ کے اکثر حکمران اہل بیت سے بغض رکھتے تھے۔ اس کا آغاز یزید کے دورِ حکومت سے ہوا۔ یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی۔ اُس بدبخت اور ملعون کے زمانہ میں ایک کلچر develop ہوگیا، سارے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، معاملہ Politicize ہوگیا۔ حکومت کے چھوکرے، لونڈے، عمال، انتظامیہ، بیوروکریسی، وزیر، مشیر، سیاسی نمائندگان، جن کو چھوٹی چھوٹی سطح کا اقتدار ملتا ہے، علاقوں میں اُن کے ذمہ داران، یہ تمام اہل بیت اطہار کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ سیدنا مولا علی المرتضی اور اہل بیت اطہارکو برا بھلا کہتے۔
حتی کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں، جب اُن کا دور آیا، تو انہیں یہ قانون نافذکرنا پڑا کہ جو یزید کو امیرالمومنین کہے گا، شرعی طور پہ اُس کو بیس کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اس حوالے سے مزید سخت اقدامات لینے پڑے۔ آپ نے منبروں پر حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنھما اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کا کلچر حکماً بند کردیا۔ لوگوں کے ذہن اتنے یکطرفہ اور اتنے زہر آلودہ ہو چکے تھے کہ باقاعدہ احکامات صادر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار کو اور سیدنا مولاعلی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر پابندی لگادی تو تاریخ کی کتب، اسماء الرجال کی کتب، محدثین کے ہاں یہ درج ہے کہ عامۃ الناس نے شور مچایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے سنت بند کردی۔ حالانکہ وہاں سنت سے لغوی معنی مراد ہے کہ وہ ایک طریقہ اور شیوہ جو پرانا چلا آرہا تھا، اس کو ختم کردیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سنت بند نہیں کی بلکہ جو بند کیا وہ بےہودگی تھی، دین کے خلاف ایک ماحول تھا، جو بعض لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے بنا رکھا تھا تاکہ حکومت سے مراعات لیں‘ اُس کوبند کیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔