نماز جامع اوقات ہے یا نظام اوقات؟


سوال نمبر:397
نماز جامع اوقات ہے یا نظام اوقات؟

  • تاریخ اشاعت: 26 جنوری 2011ء

زمرہ: عبادات  |  عبادات

جواب:

نماز جامع اوقات بھی ہے اور نظام الاوقات بھی۔

نماز بطور جامع اوقات

تمام عبادات میں تنہا نماز ہی ایک ایسا منفرد عمل ہے جو شب و روز کی کسی نہ کسی ساعت سے متعلق ہونے کی بناء پر ایک باقاعدہ نظام الاوقات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوقات نماز دن اور رات کے تمام اوقات کے جامع ہیں اور ہر نماز فرضیت کے اعتبار سے مقررہ اوقات کی تابع کر دی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :

 

اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاo

النساء، 4 : 103

’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہےo‘‘

نماز بطور نظام الاوقات

تمام نمازیں ایک باضابطہ اور مربوط نظام الاوقات کے تابع ہیں جس کی بدولت دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ہر نماز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جو نماز اس کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ادا ہوگی وہی ’’ادا‘‘ نماز تصور ہوگی ورنہ اس کی ’’قضا‘‘ لازم آئے گی۔

دن اور رات کی ہر ساعت ایک خاص رنگ و آہنگ اور تاثیر لیے ہوئے ہے۔ جس کا پرتو اس ساعت کے اندر رکھی جانے والی نماز میں جھلکتا نظر آتا ہے مثلاً رات کے سکون و آرام کے بعد جب انسان صبح صادق کے وقت بیدار ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں تازگی، بشاشت اور شگفتگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے چنانچہ نماز فجر اپنے دامن میں سحر کی نشاط آگیں اور کیف و سرور کی کیفیات جذب کیے ہوتی ہے۔

نمازِ فجر اور نمازِ ظہر کے درمیان کم و بیش آٹھ گھنٹے کا وقفہ حائل ہے یہ وقت کام کاج اور محنت و مشقت کا ہوتا ہے جس کے بعد قدرتی طور پر انسان کی طبیعت میں سستی اور تھکن پیدا ہو جاتی ہے اسے دور کرنے کے لیے وقت کے اس دامن میں نمازِ ظہر کو رکھ دیا گیا ہے تاکہ نماز کی ادائیگی کے بعد انسان کو کھانا کھانے اور سستانے کا موقع میسر آسکے۔

دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کرنے سے طبیعت میں جو کسالت اور سستی پیدا ہو جاتی ہے اس کا اثر زائل کرنے کے لیے سہ پہر کا وقت نماز عصر کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔

نمازِ عصر کے بعد جب سورج مغرب کی سمت اپنا سفر مکمل کرنے کے لیے سائے زمین پر پھیلا دیتا ہے اور دن اپنے اجالے سمیٹ کر رخصت ہونے لگتا ہے تو انتقال وقت کے اس سنگم پر مغرب کی نماز رکھ دی گئی۔

پھر جب رات کی تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور انسان دن بھر کی تکان اور سستی کو دور کرنے کے لیے بستر خواب پر دراز ہونے کی تیاری کرنے لگتا ہے تو وقت کی اس ساعت کو نمازِ عشاء سے منسلک کر دیا گیا۔ نمازِ عشاء کا وقت پوپھٹنے یعنی سپیدہ سحر نمودار ہونے سے قبل تک رہتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد فجر تک کے لیے وقت کو نیند اور راحت و آرام کے لیے وقف کر دیا گیا ہے۔ اس دوران اگرچہ شریعتِ اسلامیہ نے کسی کو شب بیداری کا مکلف نہیں ٹھہرایا تاہم رات کے پچھلے پہر نیند اور آرام چھوڑ کر نماز تہجد کے لیے اٹھنا بے پایاں اجر و ثواب کا حامل ہے اس کی قدر و قیمت کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو یادِ الٰہی کی حلاوت اور لذت سے آشنا ہوتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔