قرآنِ‌ مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کا شرعی حکم کیا ہے؟


سوال نمبر:3954
السلام علیکم! قرآنِ‌ مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟ اگر کوئی الزام لگائے تو الزام کے رد کے لیے مدعیٰ علیہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتا ہے؟

  • سائل: محمد عارف جمالمقام: ملتان، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 13 جولائی 2016ء

زمرہ: قسم اور کفارہ قسم

جواب:

اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھایا کرو۔ جو شخص قسم اٹھانا چاہے وہ اللہ کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے ‘‘۔

قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھانے سے قسم ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام ہے، قرآن مجید کی قسم اللہ تعالیٰ کی صفت کی قسم ہے اور یہ جائز ہے۔

حضرت ابن ابی مُلَیکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

عَنِ ابْنِ اَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ کَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَضَی بِالْيَمِينِ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَيْهِ.

’’حضرت ابن ابی مُلَیکہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لکھا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ فرمایا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 2: 949، رقم: 2524، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1336، رقم: 1711، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  3. ابو داود، السنن، 3: 311، رقم: 3619، دار الفکر
  4. ترمذي، السنن، 3: 626، رقم: 1342، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ اَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ کِنْدَةَ إِلَی النَّبِيِّ فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اﷲِ! إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَی أَرْضٍ لِي کَانَتْ لِأَبِي. فَقَالَ الْکِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي أَزْرَعُهَا لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ. فَقَالَ رَسُولُ اﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم لِلْحَضْرَمِيِّ أَلَکَ بَيِّنَةٌ؟ قَالَ: لَا. قَالَ فَلَکَ يَمِينُهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَی مَا حَلَفَ عَلَيْهِ. وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَ لَيْسَ لَکَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ. فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ، لَمَّا أَدْبَرَ أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِهِ لِيَأْکُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ اﷲَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ.

’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک مقام حضرموت سے اور دوسرا کندہ سے۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! اس شخص (کندی) نے میرے باپ کی طرف سے ملی ہوئی زمین کو مجھ سے چھین لیا، کندی نے کہا وہ میری زمین ہے اور میرے تصرف میں ہے میں اس میں زراعت کرتا ہوں، اس شخص کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر اس (کندی) شخص کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! یہ جھوٹا ہے، جھوٹ پر قسم اٹھا لے گا، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ جب کندی قسم کھانے کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے اس کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو اللہ سے جب ملاقات کرے گا اور وہ اس سے ناراض ہو گا۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 1: 123، رقم: 139
  2. ابو داؤد، السنن، 3: 221، رقم: 3245
  3. ترمذي، السنن، 3: 625، رقم: 134۰

مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوا کہ مدعی (دعویٰ کرنے والا) ثبوت پیش کرے، اگر ثبوت نہ ہو تو مدعی علیہ (جس پر دعویٰ کیا جائے) وہ قسم یا حلف دے گا۔ مدعیٰ علیہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتا ہےاور حلف دے سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری