جواب:
اہل علم اور فقہائے کرام نے تعلقات کی تین اقسام بیان کی ہیں:
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
الْمُمْتَحِنَة، 60: 8
ایسے لوگوں سے حسن سلوک اور ہمدردی و غم خواری میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کے حسن اخلاق سے متاثر ہوں گے اور آپسی فاصلہ کم ہوگا۔
دعوتِ دین کی خاطر غیرمسلم سے دوستی کرنا اور اس سے خوش اخلاقی سے پیش آنا جائز ہے، تاہم اس سلسلے میں اس بات کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے کہ آپ کا اسلامی امتیاز ہمہ وقت برقرار رہے اور عقائد یا دینی مسائل میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہو۔ کسی بھی مسلمان کو رواداری کے نام پر ذرہ برابر دین کے معاملے میں رد و بدل اور ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔
غیر مسلم کے لئے ’السلام علی من اتبع الهدیٰ‘ یا’ آداب‘ کہنا جائز ہے- اگر کوئی غیر مسلم ’السلام علیکم‘ کہے تو اسے جواب میں صرف ’وعلیکم‘ کہنا چاہیے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کیا غیرمسلم کو سلام کرنا جائز ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔