جواب:
قربانی اسلام کا عظیم شعار اور مالی عبادت ہے جو ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہے جو عید الضحیٰ کے ایام (10، 11، 12 ذوالحجہ) میں نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں حاجاتِ اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب کے برابر ہے۔ نصابِ شرعی سے مراد کسی شخص کا ساڑھے باون تولے (612.36گرام) چاندی یا اس کی رائج الوقت بازاری قیمت کے برابر رقم یا اتنی مالیّت کا سامانِ تجارت یا اتنی مالیّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اور اُس پر اِتنا قرضہ نہ ہو کہ جسے منہا کرنے سے مذکورہ نصاب باقی نہ رہے۔
فُقہائے کرام کے نزدیک حاجاتِ اصلیہ سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کی انسان کو عمومی طور پر ضرورت ہوتی ہے اور جن کے بغیر زندگی گزارنا مشکل اور دشوار محسوس ہوتا ہے، جیسے رہائش کیلئے گھر، پہننے کیلئے لباس، سواری، تعلیم کا بندوبست اور پیشے سے متعلق ساز و سامان اور اوزار وغیرہ۔
(الھدایۃ، ج: 1، ص: 96)
حاجاتِ اَصلیہ کی مذکورہ تعریف کو ملحوظ رکھتے ہوئے علماء فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس روزمرّہ کی ضروریات سے زائد اتنا ساز و سامان ہے کہ اُس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہو گی۔ اعلیٰحضرت امام احمد رضاخانؒ سے سُوال کیا گیا کہ ’’اگر زید کے پاس مکانِ سُکُونت (یعنی رہائشی مکان) کے علاوہ دو ایک اور (یعنی مزید) ہوں تو اس پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں؟ انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’واجب ہے، جب کہ وہ مکان تنہا یا اُس کے اور (یعنی دیگر) مال سے حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو، مل کر چھپَّن روپے (یعنی اتنی مالیت کہ جو ساڑھے باوَن تولے چاندی کے برابر ہو) کی قیمت کو پہنچے، اگرچِہ ان مکانوں کو کرائے پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو بلکہ (اگر) مکانِ سُکُونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصّہ اس(شخص) کے جاڑ ے (یعنی سردی اور) گرمی (دونوں ) کی سکونت (رہائش)کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصّہ حاجت سے زیادہ ہو اور اس (دوسرے حصّے) کی قیمت تنہا یا اِسی قسم کے (حاجتِ اصلیہ) سے زائد مال سے مل کر نصاب تک پہنچے، جب بھی قربانی واجب ہے۔
(فتاوٰی رضویہ، ج: 20، ص: 361)
قربانی کے وجوب کے لیے محض مالکِ نصاب ہونا کافی ہے، زکوٰۃ کی طرح نصاب پر پورا سال گزرنا شرط نہیں ہے۔
لہٰذا اگر قربانی کے ایام میں آپ کے پاس مذکورہ رقم موجود ہو تو آپ پر قربانی کرنا واجب ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔