جواب:
ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے ۔کسی چیز، دن، یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بُرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین اللہ کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.
اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
(سورة يونس، 10: 107)
سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے:
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ.
اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔
الشُّوْرٰی، 42: 30
اور سورہ النساء میں فرمان ہے:
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ.
(اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابئ نفس کی طرف منسوب کر)۔
النساء، 4: 79
درج بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی وَقْت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے اور اس طرح گناہگار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کے سبب وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب و مشاکل سے مامون و محفوظ نہیں رہتا۔ درحقیقت اصل نُحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
لاَ عَدْوَى، وَلاَ طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِى الْفَأْلُ، قَالُوا: وَمَا الْفَأْلُ؟ قَالَ: كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ.
صحيح البخاری، کتاب الطب، باب الطير: 5776
’’چھوت لگناکوئی چیزنہیں اور بدشگونی (کی کوئی حقیقت) نہیں ہے، البتہ نیک فال مجھے
پسندہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نےعرض کیا: نیک فال کیا ہے؟ حضوراکرم صلیٰ
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے اچھی بات سن لینا۔‘‘
اگر کوئی شخص گھر سے کہیں جانے کے لئے نکلا اور کالی بلی نے اس کا راستہ کاٹ لیا، جسے
اس نے اپنے حق میں منحوس جانا اور واپس پَلَٹ گیا یا یہ ذہن بنا لیا کہ اب مجھے کوئی
نہ کوئی نقصان پہنچ کر ہی رہے گا، تو یہ بدشگونی ہے جس کی اسلام میں مُمَانَعَت ہے۔
اگرگھر سے نکلتے ہی کسی نیک شخص سے ملاقات ہوگئی جسے اُس نے اپنے لئے باعث خیر سمجھا
تو یہ نیک فالی کہلاتاہے اور یہ جائزہے۔
آپ اپنی سہولت کے ساتھ جس دن چاہیں کپڑے کاٹ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔