کیا پیر کے عمل کی سزا یا جزا مرید کو بھی ہوگی؟


سوال نمبر:3866
السلام علیکم! ہمارے ہاں‌ یہ مشہور ہے کہ پیر کا ٹھکانہ جہاں‌ ہوگا، مرید بھی اسی کے ساتھ ہوگا۔ یعنی اگر پیر دنیا و آخرت میں کامیاب ہے تو مرید بھی کامیاب اور اگر پیر لائقِ عذاب ہے تو مرید بھی اسی کا مستحق ہے۔ اس بارے میں راہنمائی فرما دیں۔ شکریہ

  • سائل: شاداب قادریمقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 18 اپریل 2016ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

قرآن مجید کی متعدد آیات مبارکہ میں اچھی صحبت اپنانے اور بری صحبت سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشادخداوندی ہے:

يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَo

’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘

التوبة، 9: 119

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں سچے لوگوں کے ساتھ شامل ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور سورہ کہف میں اﷲ تعاليٰ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصحاب صفہ کے ساتھ جم کر بیٹھنے کا حکم فرما کر امت کو نیک لوگوں کی سنگت اختیار کرنے کا سبق دیا ہے۔ اور آیت مبارکہ کے آخر میں اپنے ذکر سے غافل اور ہوائے نفس کی پیروی کرنے شخص کی اطاعت سے منع فرمایا ہے۔

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَةِ وَالْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰـکَ عَنْهُمْ ج تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰـوةِ الدُّنْيَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَهُ وَکَانَ اَمْرُهُ فُرُطًاo

’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے۔‘‘

الکهف: 18، 28

عقیدہ و امور آخرت میں اس شخص کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اﷲ تعاليٰ کی طرف توبہ واطاعت کے راستہ پر ہو۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے:

وَ اِنْ جَاهَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌلا فَـلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْيَا مَعْرُوْفًاز وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَ ج ثُمَّ اِلَيَ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo

’’اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا، اور دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھے طریقے سے ساتھ دینا، اور (عقیدہ و امورِ آخرت میں) اس شخص کی پیروی کرنا جس نے میری طرف توبہ و طاعت کا سلوک اختیار کیا۔ پھر میری ہی طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں ان کاموں سے باخبر کر دوں گا جو تم کرتے رہے تھے۔‘‘

لقمان، 31: 15

دنیا میں جو لوگ راہ ہدایت کو چھوڑ کر بری صحبت اختیار کر لیتے ہیں اُن کے بارے میں ارشادباری تعاليٰ ہے:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًاo يٰـوَيْلَتٰی لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُـلَانًا خَلِيْلًاo لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَ نِيْ وَکَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًاo

’’اور اس دن ہر ظالم (غصہ اور حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسولِ (اکرم  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیّت میں (آکر ہدایت کا) راستہ اختیار کر لیا ہوتا۔ ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بے شک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا، اور شیطان انسان کو (مصیبت کے وقت) بے یار و مدد گار چھوڑ دینے والا ہے۔‘‘

الفرقان، 25: 27- 29

پھرفرمایا:

اَ لْاَخِلَّآءُ يَوْمَئِذٍم بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَo

’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)۔‘‘

الزخرف، 43: 67

اور حدیث مبارکہ میں اچھی اور بری صحبت کے اثرات کو عطار اور لوہار کی دکانوں کی مثال دے کر سمجھایا گیا ہے۔ حضرت ابو موسيٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْکِ وَکِيرِ الْحَدَّادِ لَا يَعْدَمُکَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْکِ إِمَّا تَشْتَرِيهِ أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ وَکِيرُ الْحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَکَ أَوْ ثَوْبَکَ أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً.

’’اچھے اور برے ہم نشین کی مثال مشک والے اور لوہار جیسی ہے کہ مشک سے کوئی فائدہ حاصل کر کے ہی واپس لوٹو گے یا تو اسے خریدو گے ورنہ خوشبو تو پاؤ گے اور لوہار کی بھٹی تمہارے جسم پر کپڑے کو جلائے گی ورنہ اس کی بدبو تو تمہیں پہنچے گی۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 2: 741، رقم: 1995، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 4: 2۰26، رقم: 2628، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اچھی صحبت انسان کے لئے کامیابی کی راہیں ہموار کرتی ہے اور بری صحبت ہلاکت وگمراہی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسے نفوس قدسیہ کی صحبت وسنگت اختیار کرنی چاہیے جن کو دیکھ کر مردہ دل زندہ ہو جائیں، دلوں کی غفلت دور ہو جائے اور وہ بیدار ہو کر اﷲ کی یاد میں مشغول ہو جائیں۔ ایسے اولیاء اﷲ کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے:

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخِيَارِکُمْ؟ قَالُوا: بَلَی يَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ: خِيَارُکُمْ الَّذِينَ إِذَا رُئُوا ذُکِرَ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ.

’’حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اچھے انسان نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جسے جب لوگ دیکھیں تو انہیں اﷲ یاد آجائے۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 459، رقم: 27642، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. ابن ماجة، السنن، 2: 1379، رقم: 4119، بيروت: دار الفکر

ابھی تک کی ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعاليٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات بجالانے والے پیر کے جو مرید اُسی کے راستے پر ہونگے روزِ قیامت پیر کے ساتھ وہ بھی کامیاب وکامران ہونگے۔ اگر وہ جعلی پیر ہوا اور خود بھی قرآن وحدیث کی تعلیمات سے دور ہوا اور اُس کے پیروکار بھی احکاماتِ الٰہی پر عمل پیرا نہ ہوئے تو اُن کا انجام برا ہو گا۔

ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دکھاوے کی خاطر پر پیر نماز، روزہ اور دیگر عبادات میں بھی مشغول رہتا ہو لیکن دوسری طرف کبائر گناہوں میں بھی ملوث ہو تو ایسی صورت میں مرید اگر نیک ہو گا تو اُسے اجر ملے گا پیر کے ساتھ عذاب میں شامل نہیں کیا جائے۔ علامہ محمد اقبال رحمہ اﷲ ایسے پیر ومرید کے بارے میں لکھتے ہیں۔

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

یعنی کسی کا گناہ دوسرے کے کھاتے میں نہیں ڈالا جائے گا جب تک وہ خود گناہ میں ملوث نہ ہو گا یا پھر گناہگار کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کسی کے گناہ کا عذاب کسی دوسرے کو نہیں ہو گا۔

قُلْ اَغَيْرَ اﷲِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ کُلِّ شَيْئٍ ط وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَاج وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ج ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَo

’’فرما دیجیے: کیا میں اﷲ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالاں کہ وہی ہر شے کا پروردگار ہے، اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت) سے آگاہ فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔‘‘

الانعام، 6: 164

مَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهِ ج وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ط وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاًo

’’جو کوئی راہِ ہدایت اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کے لیے ہدایت پر چلتا ہے اور جو شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس کی گمراہی کا وبال (بھی) اسی پر ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں۔‘‘

الاسراء، 17: 15

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰی حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْئٌ وَّلَوْکَانَ ذَاقُرْبٰی ط اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ط وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا يَتَزَکّٰی لِنَفْسِهِ ط وَاِلَی اﷲِ الْمَصِيْرُo

’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بارِ (گناہ) نہ اٹھا سکے گا، اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا (دوسرے کو) اپنا بوجھ بٹانے کے لیے بلائے گا تو اس سے کچھ بھی بوجھ نہ اٹھایا جا سکے گا خواہ قریبی رشتہ دار ہی ہو، (اے حبیب!) آپ ان ہی لوگوں کو ڈر سناتے ہیں جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کوئی پاکیزگی حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے پاک ہوتا ہے، اور اﷲ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘‘

فاطر، 35: 18

إِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اﷲَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ قف وَلَا يَرْضٰی لِعِبَادِهِ الْکُفْرَ ج وَاِنْ تَشْکُرُوْا يَرْضَهُ لَکُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ط اِنَّهُ عَلِيْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِo

’’اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لیے پسند فرماتا ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں اُن کاموں سے خبردار کردے گا جو تم کرتے رہے تھے، بے شک وہ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں کو (بھی) خوب جاننے والا ہے۔‘‘

الزمر، 39: 7

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰیo

’’کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

النجم، 53: 38

تِلْکَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج وَلاَ تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo

’’وہ ایک امت تھی جو گزر چکی، ان کے لیے وہی کچھ ہوگا جو انہوں نے هْیا اور تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم کماؤ گے اور تم سے ان کے اعمال کی باز پُرس نہ کی جائے گی۔‘‘

تِلْکَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ج لَهَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo

’’وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، جو اس نے کمایا وہ اس کے لیے تھا اور جو تم کماؤ گے وہ تمہارے لیے ہوگا، اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا۔‘‘

وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَی اﷲِقف ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo

’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اﷲ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر شخص کو جو کچھ عمل اس نے کیا ہے اس کی پوری پوری جزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔‘‘

لَا يُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ط لَهَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اکْتَسَبَتْ ط رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ط رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَهُ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا ط رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ط وَاعْفُ عَنَّا وقفه وَاغْفِرْلَنَا وقفه وَارْحَمْنَا وقفه اَنْتَ مَوْلٰـنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰـفِرِيْنَo

’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ فرما، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا (بھی) بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہمارے (گناہوں) سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔‘‘

فَکَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِيَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيْهِ قف وَوُفِّيَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo

’’سو کیا حال ہو گا جب ہم ان کو اس دن جس (کے بپا ہونے) میں کوئی شک نہیں جمع کریں گے، اور جس جان نے جو کچھ بھی (اعمال میں سے) کمایا ہوگا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

آل عمران، 3: 25

لہٰذا خود گناہ کرنے یا گناہ کے کاموں میں تعاون کرنے سے عذاب ہو گا۔ اس کے علاوہ کسی کے ساتھ لائق عذاب نہیں ٹھہرایا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری