جواب:
کسی شخص سے کوئی چیز مقررہ کرائے پر لینا یا مقررہ اجرت پر کسی سے مزدوری کروانا اجارہ کہلاتا ہے۔ فقہائے کرام کے نزدیک جارہ سے مراد ہے:
الْإِجَارَةُ عَقْدٌ عَلَى الْمَنَافِعِ بِعِوَضٍ.
عقدِ اجارہ ایک معاہدہ ہے جو کسی معاوضہ کے بدلے کسی منفعت پر کیا جائے۔
اور امام جرجانی کے نزدیک اجارہ کا مطلب ہے:
الاجارة: عبارة عن العقد علیٰ المنافع بعوض هو مال، و تمليک المنافع بعوض اجارة و بغير عوض اعارة.
اجارہ اس معاہدے سے عبارت ہے کہ جو کسی معاوضہ کے بدلے منفعت پر کیا جائے، یہ معاوضہ (عام طور پر) مال ہوتا ہے اور جب معاوضہ کے بدلے منفعت کا مالک ہو تو اجارہ (ہوتا ہے) اور بغیر معاوضہ کے ہو تو عاریت ہے۔
جرجانی، التعريفات، 1: 23، دارالکتاب العربی، بيروت
یعنی اجارہ سے مراد ایسا معاہدہ ہے جو مقررہ مال کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے پر عمل میں آتا ہے۔ مزدوری، ٹھیکہ، کرایہ اور ملازمت وغیرہ سب ہی اجارہ کی مختلف اقسام ہیں۔ آجر یا مستاجر اس شخص یا ادارے کو کہتے ہیں جو کسی سے اجرت پر کام لے رہا ہو اور اجیر وہ شخص ہے جو اجرت کے بدلے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔
جو صورت آپ نے پیش کی ہے یہ بھی اجارہ ہی کی ایک شکل ہے جس میں معاوضہ یا اجرت کے بدلے اپنی خدمات اور معاونت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے معاونت کے بدلے آپ کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔ لیکن ملازمت دلوانے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں، اس لیے میرٹ کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر کمیشن لینے کی لالچ میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور غیرشرعی و غیرقانونی ذرائع کی مدد لی گئی تو پھر کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ میرٹ کے مطابق، شرعی و قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مدد کرنا اور اس کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔