جواب:
عبدالرحمٰن الجزیری اپنی کتاب الفقہ علیٰ مذاہب الاربعہ میں لکھتے ہیں:
بعض حنابلہ اور علمائے احناف مشت زنی کو اس وقت جائز قرار دیتے ہیں جس انسان کے زناء میں مبتلاء ہونے کا خوف ہو، لیکن یہ رائے بہت ضعیف ہے۔
عبدالرحمٰن الجزيری، الفقه علیٰ مذهب الاربعه، 5: 152، دارالفکر، بيروت، لبنان
امام احمد بن حنبل سمیت جن آئمہ نے زناء سے بچاؤ کے لیے مشت زنی کو جائز قرار دیا ہے ان کی رائے قرآن و حدیث کے احکام کے مقابل نہایت ضعیف ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ. فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ.
ور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔
الْمُؤْمِنُوْن، 23: 5-7
اور رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ اَبِي حَمْزَةَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ إِبْرَهيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَيْنَا اَنَا اَمْشِي مَعَ عَبْدِ اﷲِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّه اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْه بِالصَّوْمِ فَإِنَّه لَه وِجَاءٌ.
’’حضرات عبدان، ابو حمزہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا: جو عورت کا مہر ادا کرسکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘
حکمِ الٰہی سے واضح ہے کہ اپنی بیویوں کے علاوہ کسی اور طریقے سے شہوت پوری کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زنا کا خوف دور کرنے کا دوسرا قابلِ عمل طریقہ بتا دیا ہے۔ ان واضح احکام کی موجودگی میں فعل بد کے جواز کے راستے تلاش کرنا اور اسے نوجوان نسل میں فروغ دینا کسی طور درست نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔