جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات ترتیب کے ساتھ درج ذیل ہیں:
عَنْ يَعْلَی اَنَّ رَسُولَ اﷲِ رَاَی رَجُلًا يَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ بِلَا إِزَارٍ فَصَعَدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اﷲَ وَاَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ فَإِذَا اغْتَسَلَ اَحَدُکُمْ فَلْيَسْتَتِرْ.
’’حضرت یعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو کھلی جگہ میں ننگے غسل کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت حیاء والا اور پردہ پوش ہے، اس لئے حیاء اور پردے کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی کھلی جگہ غسل کرے تو اسے ستر چھپا لینا چاہیے۔‘‘
بعض محدثین کرام نے اس حدیث مبارکہ کو کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ نقل کیا ہے:
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَی بْنِ اُمَيَةَ عَنْ اَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ فَإِذَا اَرَادَ اَحَدُکُمْ اَنْ يَغْتَسِلَ فَلْيَتَوَارَ بِشَيْئٍ.
’’حضرت صفوان بن یعلی بن اُمیہ، اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ پردہ پوش ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی غسل کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی چیز کا پردہ کر لیا کرے۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے معلوم ہوا کہ اصل مقصد دوسرے لوگوں سے ستر چھپا کر غسل کرنا ہے وہ کپڑے سے چھپا لیں یا دیواروں کی آڑ میں، یعنی کوئی دوسرا شخص ستر نہ دیکھ سکے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بند غسل خانے میں برہنہ ہو کر غسل کرنا جائز ہے اور بلا کراہت غسل ہو جاتا ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم اَنَّ النَّبِيِّ صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ بَدَاَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثُمَّ يَتَوَضَّاُ کَمَا يَتَوَضَّاُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ يُدْخِلُ اَصَابِعَهُ فِی الْمَائِ فَيُخَلِّلُ بِهَا اُصُولَ شَعَرِهِ ثُمَّ يَصُبُّ عَلَی رَأْسِهِ ثَلَاثَ غُرَفٍ بِيَدَيْهِ ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَی جِلْدِهِ کُلِّهِ.
’’نبی کریم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب غسل جنابت شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو دھوتے۔ پھر نماز جیسا وضو کرتے پھر اپنی انگلیوں کو پانی میں داخل کرتے اور ان سے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے پھر ہاتھوں سے تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالتے۔ پھر پانی کو اپنے سارے جسم پر بہایا کرتے تھے۔‘‘
(حدیث مبارکہ متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں)
اور حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم لَا يَتَوَضَّاُ بَعْدَ الْغُسْلِ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم غسل کے بعد دوبارہ وضو نہ فرماتے تھے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ دیگر محدثینِ کرام نے بھی نقل کی ہے۔
لہٰذا دورانِ غسل وضو کر لیا جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر دوران غسل ننگی حالت میں کیا ہوا وضو برقرار رہتا ہے تو پھر غسل خانے میں برہنہ حالت میں بھی وضو کر سکتے ہیں لیکن دوران وضو دعائیں وغیرہ نہیں پڑھ سکتے۔ بہر حال وضو ہو جاتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔