باتھ روم میں لگے بیسن پر وضو کرتے ہوئے کلمات طیبہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3714
السلام علیکم! کچھ سوالات کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔ آج کل باتھ روم ایک ہوتا ہے، اس میں حاجت روی اور غسل کی سہولت ہوتی ہے۔ باتھ روم ایک بند کمرے کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے پاخانہ کرنے کے بعد ساتھ ہی غسل بھی کرلیا جاتا ہے اور غسل کرتے وقت ننگے ہوتے ہیں۔ کیا اس طرح غسل ہو جاتا ہے؟ کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ننگے غسل نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ باتھ روم میں ہی لوگ وضو بھی کرتے ہیں کیونکہ باتھ روم میں ہی سنک لگا ہوتا ہے۔ کیا ننگی حالت میں وضو ہوجاتا ہے؟ باتھ میں آدمی کپڑوں کے بغیر ہوتا ہے کیا بغیر کپڑوں ننگی حالت میں وضو ہو جاتا ہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ حدیث میں ہے کہ بسم اللہ پڑھے بغیر وضو نہیں ہوتا۔ اگر وضو کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی تو وضو نہیں ہوا۔ اگر آدمی بھول گیا اور درمیانِ وضو یاد آیا کہ بسم اللہ نہیں پڑھی تو اس وقت درمیان میں پڑھ لے تو کیا وضو ہو جائے گا؟ یا آخر میں بسم اللہ پڑھ لے تو کیا وضو ہوگا؟

  • سائل: محمد اقبال قادریمقام: دبئی
  • تاریخ اشاعت: 12 ستمبر 2015ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل  |  وضوء

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات ترتیب کے ساتھ درج ذیل ہیں:

  1. غسل خانے یا کسی بھی ایسے محفوظ مقام پر جہاں کوئی دوسرا شخص ستر نہ دیکھ سکے، وہاں برہنہ ہو کر غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن کھلی جگہ جہاں لوگوں کا آنا جانا ہو وہاں برہنہ غسل کرنے کی ممانعت ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ يَعْلَی اَنَّ رَسُولَ اﷲِ رَاَی رَجُلًا يَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ بِلَا إِزَارٍ فَصَعَدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اﷲَ وَاَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ فَإِذَا اغْتَسَلَ اَحَدُکُمْ فَلْيَسْتَتِرْ.

’’حضرت یعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو کھلی جگہ میں ننگے غسل کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت حیاء والا اور پردہ پوش ہے، اس لئے حیاء اور پردے کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی کھلی جگہ غسل کرے تو اسے ستر چھپا لینا چاہیے۔‘‘

  1. ابي داود، السنن، 4: 39، رقم: 4012، دار الفکر
  2. نسائي، السنن، 1: 200، رقم: 406، دار الکتب العلمية بيروت
  3. بيهقي، السنن الکبری، 1: 198، رقم: 908، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

بعض محدثین کرام نے اس حدیث مبارکہ کو کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ نقل کیا ہے:

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَی بْنِ اُمَيَةَ عَنْ اَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ  صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ فَإِذَا اَرَادَ اَحَدُکُمْ اَنْ يَغْتَسِلَ فَلْيَتَوَارَ بِشَيْئٍ.

’’حضرت صفوان بن یعلی بن اُمیہ، اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ  صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ پردہ پوش ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی غسل کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی چیز کا پردہ کر لیا کرے۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 4: 224، رقم: 17999، موسسة قرطبة مصر
  2. نسائي، السنن، 1: 200، رقم: 407
  3. عبد الرزاق، المصنف، 1: 288، رقم: 1111، المکتب الاسلامي بيروت

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے معلوم ہوا کہ اصل مقصد دوسرے لوگوں سے ستر چھپا کر غسل کرنا ہے وہ کپڑے سے چھپا لیں یا دیواروں کی آڑ میں، یعنی کوئی دوسرا شخص ستر نہ دیکھ سکے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بند غسل خانے میں برہنہ ہو کر غسل کرنا جائز ہے اور بلا کراہت غسل ہو جاتا ہے۔

  1. غسل کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اگر جسم پر نجاست لگی ہوئی ہو تو پہلے اُسے دھویا جائے پھر مکمل وضو کیا جائے، اور سارے جسم پر پانی بہایا جائے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم اَنَّ النَّبِيِّ صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ بَدَاَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثُمَّ يَتَوَضَّاُ کَمَا يَتَوَضَّاُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ يُدْخِلُ اَصَابِعَهُ فِی الْمَائِ فَيُخَلِّلُ بِهَا اُصُولَ شَعَرِهِ ثُمَّ يَصُبُّ عَلَی رَأْسِهِ ثَلَاثَ غُرَفٍ بِيَدَيْهِ ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَی جِلْدِهِ کُلِّهِ.

’’نبی کریم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب غسل جنابت شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو دھوتے۔ پھر نماز جیسا وضو کرتے پھر اپنی انگلیوں کو پانی میں داخل کرتے اور ان سے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے پھر ہاتھوں سے تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالتے۔ پھر پانی کو اپنے سارے جسم پر بہایا کرتے تھے۔‘‘

(حدیث مبارکہ متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں)

  1. بخاري، الصحيح، 1: 99، رقم: 245، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 1: 253، رقم: 316، دار احياء التراث العربي بيروت

اور حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اﷲِ  صلیٰ الله تعالیٰ عليه وآله وسلم لَا يَتَوَضَّاُ بَعْدَ الْغُسْلِ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم غسل کے بعد دوبارہ وضو نہ فرماتے تھے۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 6: 68، رقم: 24434
  2. ترمذي، السنن، 1: 179، رقم: 107، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. ابن ماجه، السنن، 1: 191، رقم: 579، دار الفکر بيروت

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ دیگر محدثینِ کرام نے بھی نقل کی ہے۔

لہٰذا دورانِ غسل وضو کر لیا جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر دوران غسل ننگی حالت میں کیا ہوا وضو برقرار رہتا ہے تو پھر غسل خانے میں برہنہ حالت میں بھی وضو کر سکتے ہیں لیکن دوران وضو دعائیں وغیرہ نہیں پڑھ سکتے۔ بہر حال وضو ہو جاتا ہے۔

  1. وضو کے شروع میں یا ہر عضو کو دھوتے ہوئے ’’بسم اﷲ‘‘ پڑھنا مسنون اور باعث برکت ہے۔ احادیث میں یہ ضرور آیا ہے کہ ’’بسم اﷲ کے بغیر وضو نہیں‘‘ لیکن وہ روایات اس درجہ کی نہیں ہیں کہ ان سے وضو سے پہلے یا درمیان میں بسم اﷲ پڑھنا فرض یا واجب ثابت کیا جا سکے۔ لہٰذا جب بھی یاد آئے پڑھ لے لیکن بھول جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضروت نہیں ہے، وضو ہو جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری