اگر لڑکی نکاح کو قبول نہ کرے تو کیا نکاح منعقد ہو جائے گا؟


سوال نمبر:3691
السلام علیکم! کیا لڑکی کے ولی اس کی مرضی کے بنا نکاح کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اوراگر زبردستی اس کا نکاح کر دیں جبکہ رخصتی نہ ہوئی ہو اور لڑکی نکاح کو نہ مانتی ہو تو کیا یہ نکاح ہو گیا یا نہیں؟

  • سائل: عمر خانمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 03 مئی 2017ء

زمرہ: نکاح

جواب:

ارشاد باري تعالي ہے:

لَآ اِکْرَاهَ فِي الدِّيْنِ.

دين ميں کوئي زبردستي نہيں۔

البقرة، 2: 256

مذکورہ بالا آيت مبارکہ سے واضح ہے کہ دين اسلام ميں زبردستی نہيں ہے اور احاديث مبارکہ ميں بھی زبردستی کروائے گئے امور کی نفی کی گئی ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ إِنَّ اﷲَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُکْرِهُوا عَلَيْهِ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بيان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا: اللہ تعالی نے ميری امت سے خطاء، سہو اور جبر و اکراہ معاف فرمايا ہے۔

(امام حاکم فرماتے ہيں: يہ حديث امام بخاری وامام مسلم کي شرائط کے مطابق صحيح ہے ليکن انہوں نے اس کو روايت نہيں کيا)

  1. ابن ماجه، السنن، 1: 659، رقم: 2045، بيروت: دار الفکر
  2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2: 216، رقم: 2801، دار الکتب العلمية بيروت
  3. بيهقي، السنن الکبري، 7: 356، رقم: 14871، مکة المکرمة: مکتبة دار الباز

جبراً کئے گئے نکاح سے تو ويسے بھی مقصدِ نکاح فوت ہو جاتا ہے کيونکہ مياں بيوی ايک دوسرے کے ساتھ پيار محبت کی بجائے نفرت کريں گے تو زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی اور جب جوڑا ايک دوسرے سے سکون نہيں پائے گا تو نکاح بے مقصد ہو جائے گا۔

ارشادِ باری تعالي ہے:

وَمِنْ اٰيـتِهِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَيهَا وَجَعَلَ بَينَکُمْ مَّوَدَّة وَّرَحْمَةط اِنَّ فِي ذٰلِکَ لَاٰيتٍ لِّقَوْمٍ يتَفَکَّرُوْنَo

اور يہ (بھی) اس کی نشانيوں ميں سے ہے کہ اس نے تمہارے ليے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پيدا کيے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درميان محبت اور رحمت پيدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخليق) ميں ان لوگوں کے ليے نشانياں ہيں جو غور و فکر کرتے ہيں۔

الروم، 30: 21

اور حاديث مبارکہ ميں لڑکی کی اجازت کے بغير نکاح کرنے سے منع کيا گيا ہے۔ حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

لَا تُنْکَحُ الْأَيمُ حَتَّي تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّي تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يا رَسُولَ اﷲِ وَکَيفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ.

بيوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغير نہ کيا جائے اور کنوای لڑکی کا نکاح بھی اس کي اجازت کے بغير نہ کيا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: ياسول اﷲ! کنواری کی اجازت کيسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمايا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو يہ بھی اجازت ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 1974، رقم: 4843، بيروت، لبنان: دارابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 2: 1036، رقم: 1419، بيروت، لبنان: داراحياء التراث العربي

ايک روايت ميں ہے:

عَنْ عَائِشَة أَنَّهَا قَالَتْ يا رَسُولَ اﷲِ إِنَّ الْبِکْرَ تَسْتَحِي قَالَ رِضَاهَا صَمْتُهَا.

حضرت عائشہ صديقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ميں عرض کی: يارسول اﷲ! کنواری لڑکي تو (نکاح کی) اجازت دينے سے شرماتی ہے (تو اس سے اجازت کیسے لی جائے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) ارشاد فرمايا: اس کا خاموش ہو جانا ہي اجازت دينا ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 1974، رقم: 4844، بيروت، لبنان: دارابن کثير اليمامة
  2. ابن حبان، الصحيح، 9: 394، رقم: 4082، بيروت: مؤسسة الرسالة
  3. أبي عوانة، المسند، 3: 75، رقم: 4248، بيروت: دار المعرفة

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ اقدس ميں ايک لڑکی کے والد نے اُس کی مرضی کے خلاف نکاح کيا تو وہ نبی کريم کے پاس آ گئی کہ ميں اس نکاح ميں راضی نہيں۔ تو آپ نے نکاح منسوخ قرار دے ديا جيسا کہ حديث مبارکہ ميں ہے۔ حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاريہ رضی اللہ عنہا بيان کرتی ہيں:

إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ فَرَدَّ نِکَاحَهَا.

ان کے والد ماجد نے ان کي شادی کر دی جبکہ وہ بيوہ تھيں، مگر اُنہيں يہ شادي ناپسند تھی۔ سو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو گئيں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرما ديا۔

  1. بخاري، الصحيح، 6: 2547، رقم: 6546، بيروت، لبنان: دارابن کثير اليمامة
  2. أبي داود، السنن، 2: 233، رقم: 2101، دار الفکر
  3. دارمي، السنن، 2: 187، رقم: 2192، بيروت: دار الکتاب العربي

مذکورہ بالا تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ جبراً کیا گیا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ نکاح کی شرائط میں سے ایک ایجاب و قبول ہے۔ اگر لڑکی نکاح کے لیے راضی نہیں ہے، نکاح کو قبول نہیں کرتی تو نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ نکاح کے انعقاد کے لیے لڑکی کی رضا اور اجازت ضروری ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری