کنایہ کے کن الفاظ سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے؟


سوال نمبر:3669
سوال نمبر 3641 کے حوالے سے مزید ہدایت فرمائیں۔ اگر الفاظ کنایہ پہلے بولے ہوں اور صریح الفاظ سے طلاق بعد میں دی گئی ہوں تو کیا بعد میں دی گئی طلاق غیر مؤثر ہوگئی خواہ وہ عدت کے اندر ہی کیوں نہ ہوں؟۔ برائے مہربانی حوالہ کے ساتھ جواب دیں اور یہ الفاظ “ میں‌تمہیں نہیں رکھ سکتا ہوں (طلاق کی نیت سے)“ کنایہ الفاظ میں شمار ہونگے؟

  • سائل: محمد عمیرمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 03 اکتوبر 2015ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق صریح

جواب:

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے کہے کہ ’میں تمہیں نہیں رکھ سکتا‘ تو طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے:

وَالضَّرْبُ الثَّانِي: الْکِنَايَاتُ، وَلاَيَقَعُ بهَا الطلاَقُ إلاَّبِنِيَةٍ، اَوْ دَلالَةٍ حَالٍ. وَهِيَ عَلَی ضَرْبَيْنِ: مَنْها ثَلاَثَةُ اَلْفَاظٍ يَقَعُ بهَا الطّلاقُ الرَّجْعِيُّ،وَلاَيَقَعُ بهَا إِلا وَاحَدَةٌ، وَهِيَ قَوْلُهُ: اعْتَدِّي، وَاسْتَبْرِئِي رَحِمَکِ، وَاَنْتِ وَاحِدَةٌ، وَبَقِيَةُ الْکِنَايَاتِ إِذا نَوَی بهَا الطلاَقَ کَانَتْ وَاحِدَةً بَائِنَةً، وَإِنْ نَوَی بِهَا ثَلاَثاً کَانَتْ ثَلاَثاً، وَإِنْ نَوَی اثْنَتَيْنِ کَانَتْ وَاحِدَةً، وَهَذَا مِثْلُ قَوْلِهِ: اَنْتِ بَائِنٌ، وَبَتَّةٌ، وَبَتْلَةٌ، وَحَرَامٌ، وَحَبْلُکِ عَلَی غَارِبِکِ، وَالْحَقی بِاَهْلِک، وَخَلِيَةٌ، وَبَرِيّةٌ، وَوَهَبْتُکِ لاهْلِکِ، وَسَرَّحْتُکِ، وَاخْتَارِيْ، وَفارَقْتُکِ، وَاَنْتِ حُرَّةٌ، وَتَقَنَّعِي، وَتَخَمَّرِي، وَاسْتَتِرِيْ، وَاغْرُبِيْ، وَابْتَغِي الاَزْوَاجَ، فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُ نِيَةٌ لَمْ يَقَعْ بِهٰذِهِ الاَلْفَاظِ طَلاَقٌ؛ إِلا اَنْ يَکُوْنَا فِيْ مُذَاکَرَةِ الطّلاَقِ؛ فَيَقَعُ بِهَا الطّلاَقُ فِيْ الْقَضَاءِ، وَلاَيَقَعُ فِيْمَابَيْنَةُ وَبَيْنَ اﷲِ تَعَالَی إِلاَّ اَنْ يَنْوِيَهُ، وَإِنْ لَمْ يَکُوْنَا فِيْ مَذَاکَرَةِ الطّلاَقِ، وَکَانافِيْ غَضَبٍ اَوْ خُصُوْمَةٍ، وَقَعَ الطّلاَقُ بِکُلِّ لَفْظٍ لاَ يُقْصَدُ بِهِ السَّبُّ وَالشَّتِيْمَةُ، وَلَمْ يَقَعْ بِمَا يُقْصَدُبِهِ السَّبُّ وَالشَّتِيْمَةُ إِلاَّ اَنْ يَنْوِيَةُ.

’’(طلاق کی ) دوسری قسم کنایات ہے۔ ان سے طلاق صرف اس وقت ہو گی جب نیت یا دلالت حال ہو۔ اس کی دوقسمیں ہیں: تین الفاظ وہ ہیں جن سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور صرف ایک ہی واقع ہوتی ہے اور وہ یہ ہیں خاوند کا کہنا عدت گزار لے، اپنا رحم خالی کر لے اور تُو ایک ہے۔ اور باقی کنایات سے جب نیت طلاق کی ہو ایک بائن ہو گی، اگر تین کی نیت کرے گا تو تین ہو جائیں گی۔ دو کی نیت کرے گا تو ایک ہو گی۔ اور اس کی مثال جیسے تو بائن، جدا ہے، الگ ہے، حرام ہے، تیری رسّی تیری گردن پر، اپنے میکے سے جا مل لے، تو خالی ہے، الگ تھلگ ہے، آزاد ہے، میں نے تجھے تیرے میکے کو بخش دیا، میں نے تجھے آزاد کیا، اختیار کر لے، میں نے تجھے جدا کیا، تو آزاد ہے، دوپٹہ کر لے (مراد شادی کر لے)، چادر اوڑ لے، پردہ پوشی کر لے، غریب الوطن ہو جا اور خاوند ڈھونڈ لے۔ اگر نیت نہ ہو تو ان الفاظ سے کوئی طلاق نہیں ہے۔ ہاں مگر یہ کہ جب طلاق کا مذاکرہ ہو رہا ہے تو اس میں قضاء طلاق ہو جائے گی، اور خاوند اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان نیت کے بغیر نہ ہوگی۔ اگر دونوں میں مذاکرہ طلاق نہ ہو رہا ہو اور دونوں غصہ میں ہوں اور جھگڑ رہے ہوں تو ہر لفظ سے طلاق ہو جائے گی بشرطیکہ مقصد گالی گلوچ نہ ہو۔ اور مقصد گالی گلوچ ہو تو نیت طلاق کے بغیر طلاق نہ ہو گی۔‘‘

  1. احمد بن محمد البغدادي المعروف بالقدوري، مختصر القدوري: 363. 364، موسسة الريان للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت
  2. برهان الدين علي المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 241، المکتبة الاسلامية

الکنايات لا يقع الطلاق اِلا بالنية او بدلالة الحال.

’’کنایات سے طلاق صرف اس وقت واقع ہوتی ہے جب (طلاق کی) نیت ہو یا دلالت حال ہو۔‘‘

  1. برهان الدين علي المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 241
  2. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 374، دار الفکر

ذیل میں کنایہ الفاظ سے طلاق بائن واقع ہونے کے بعد مزید طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کی وضاحت دی گئی ہے:

ان الصريح وإن کان بائنا يلحق البائن ومن ان المراد بالبائن الذي لايلحق هو ماکان کناية

’’طلاق صریح اگرچہ بائن ہو بائن سے ملحق ہو سکتی ہے اور جس بائن سے بائن ملحق نہیں ہو سکتی وہ کنایہ ہے‘‘۔

جیسے کہے ’’اَنْتِ وَاحِدَۃٌ ‘‘  ’تو اکیلی ہے‘ گو اس میں لفظ طلاق نہیں، مگر ’وَاحِدَۃٌ‘ طلاق کی صفت ہے۔ یعنی تجھے ایک طلاق۔ لہٰذا یہ اصل میں کنایہ نہیں، جس سے عورت بالکل حرام ہو جاتی ہے اور محلِ طلاق نہیں رہتی، بلکہ دراصل یہ صریح رجعی ہے۔ اس لیے اس کے بعد دوسری رجعی عدت کے اندر ہو سکتی ہے۔

المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما کان بلفظ الکناية

’’وہ بائن جس سے دوسری طلا ق نہیں مل سکتی وہ ہے جو الفاظ کنایہ سے دی جائے‘‘۔

مزید بیان کیا ہے:

إذا طلقها تطليقة بائنة ثم قال لها في عدتها انت عليّ حرام او خلية او برية او بائن او بتة او شبه ذالک وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شي.

’’جب خاوند نے بیوی کو ایک بائن طلاق دی پھر اسے عدت کے اندر کہا تُو میرے اوپر حرام ہے یا آزاد ہے یا بری ہے یا جدا ہے یا الگ ہے یا ان سے ملتے جلتے کلمات اور ان سے مراد طلاق لیتا ہے تو بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہوگی۔‘‘

إن کان الطلاق رجعياً يلحقها الکنايات لان ملک النکاح باق فتقييده بالرجعي دليل علی ان الصريح البائن لايلحقه الکنايات

’’اگر طلاق رجعی ہو تو اس سے کنایات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ ملک نکاح باقی ہے۔ سو رجعی کی قید دلیل ہے۔اس امر کی کہ صریح بائن کے بعد کلمات کنایہ کچھ عمل نہیں کر سکتے‘‘۔

امام زیلعی شارع ہدایہ فرماتے ہیں طلاق بائن کا صریح کے بعد واقع ہونا تو ظاہر ہے کہ قید حکمی ہر حال میں باقی ہے ’’لبقاء الاستمتاع‘‘ کہ اس مطلقہ سے قربت جائز ہے۔‘‘

  1. ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 3: 307.308، دار الفکر للطباعة والنشر بيروت
  2. شمس الدين السرخسي، المبسوط، 6: 214، دار المعرفة بيروت
  3. ابن همام، شرح فتح القدير، 4: 74، دار الفکر بيروت
  4. ابن نجيم، البحر الرائق، 3: 332، دار المعرفة بيروت
  5. حصفکي، الدر المختار، 3: 306، دار الفکر بيروت
  6. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 377
  7. ابراهيم بن ابي اليمن محمد الحنفي، لسان الحکام في معرفة الاحکام، 1: 327، البابي الحلبي القاهرة

(نوٹ: مذکورہ بالا عبارت فتاوی شامي کی ہے تاہم باقی فقہاء کرام کا بھی یہی مؤقف ہے)

لہٰذا کنایہ الفاظ سے طلاق بائن واقع ہونے کے بعد عدت میں بھی مزید طلاق رجعی یا بائن واقع نہیں ہوتی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری