جواب:
اَللہ ربّ العزت خالقِ کائنات ہے، قادرِ مطلق اور حقیقی مُستعان ہے۔ کائناتِ اَرض و سماء میں جاری و ساری جملہ اَعمال و اِختیارات کا حقیقی مالک وُ ہی ذاتِ حق ہے، جس کے اِذن سے شب و روز کا سلسلہ وُقوع پذیر ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات میں واحد ہے، یکتا ہے، کوئی اُس کا ہمسر نہیں۔ ارب ہا مخلوقات کو زِندگی عطا کرنے، آنِ واحد میں دی ہوئی حیات کو سلب کرنے اور وسیع و عریض کائناتوں کا نظام چلانے میں، کوئی اُس کا مددگار اور شریک نہیں۔ تمام جہانوں میں تصرّف کرنے والی اور نظامِ حیات کو روز اَفزُوں رکھنے والی ذات فقط اَللہ ربّ العزت کی ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر ملکیتِ حقیقی اَللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کو حاصل نہیں۔ اَﷲ کے سوا کوئی کسی شے کا از خود مالک نہیں بن سکتا، اِلاّ یہ کہ وہ خود اُسے مالک بنا دے یا تصرّف سے نواز دے، حتی کہ اپنی ذات اور چھ فُٹ کے بدن کے اُوپر بھی کسی فردِ بشر کو حقِ ملکیت حاصل نہیں۔ نفع و ضرر، حیات و ممات اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے کا اَز خود کوئی مالک نہیں۔ اَللہ ہی مارتا اور وُہی جِلا بخشتا ہے۔ ہماری ہر سانس اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
اَحکامِ اِسلام اور قرآنِ حکیم کی اَبدی اور لازوال تعلیمات کی روشنی میں بندے کی طرف نفع و ضرر اور مِلکیت و تصرّف کی نسبت کرنا محض سبب اور کسب کے اِعتبار سے درست ہے۔ خلق، اِیجاد، تاثیر، علّت اور قوّتِ مطلقہ کے اِعتبار سے مخلوق کی طرف نفع و ضرر کی نسبت قطعی طور پر درست نہیں۔ اگر ہم بنظرِ غائر جائزہ لیں تو مخلوق کی طرف موت و حیات، نفع و ضرر، مِلکیت و تصرّف اور اُس کے جملہ کسب کی نسبت حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہوتی ہے اور اِن اُمور میں نسبتِ حقیقی کا حقدار فقط اﷲ ربّ العزت کی ذات ہے۔ اِن حقائق کو بیان کرنے اور قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والی آیاتِ بیّنات سے اِستنباط کرنے میں بعض لوگ لفظی مُوشگافیوں اور خلطِ مبحث میں اُلجھ کر گوہرِ مقصود سے تہی دامن رہ جاتے ہیں۔ فی زمانہ اُن لوگوں نے آیاتِ قرآنیہ کے مفاہیم اَخذ کرنے میں حقیقت و مجاز کے درمیان فرق اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر فقط حقیقی معنوں سے اِستدلال لینا درست قرار دے رکھا ہے۔ چنانچہ وہ مجازی معنی کا جواز تک محلِ نظر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اَئمۂ اَسلاف کی طرف سے کی گئی تعبیرات و تفسیرات سے رُوگرداں ہیں اور عقائد کے باب میں تفسیر بالرّائے کے ذریعے بدعاتِ سیئات پیدا کرنے اور قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات سے ہٹ کر عقائد کو جنم دینے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں جب ہم غیرجانبداری سے دیکھیں تو دُوسری طرف ہمیں لفظی اِشتباہ میں پڑے ہوئے جاہل عوام بھی بکثرت ملتے ہیں جو مجاز کے اِستعمال میں حد درجہ زیادتی اور غُلو کے قائل ہیں اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اگرچہ وہ دل سے اللہ ربّ العزّت کی توحید و تنزیہہ اور دیگر اِسلامی عقائد پر پختگی کے ساتھ قائم ہیں مگر بادیء النظر میں مجاز کے اِستعمال کی کثرت کے باعث مجازی معنی کے عدم جواز کے قائل گروہ کے ہاں قابلِ دُشنام قرار پاگئے ہیں۔ حرفِ حق کی تلاش میں نکلنے والے توازن اور اِعتدال کا راستہ اپناتے ہیں۔ حقیقت و مجاز کے اِستعما ل میں قرآنی اِعتدال کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اِن دونوں اِنتہاؤں میں حائل خلیج کو پاٹ کر اُمت کو پھر سے جسدِ واحد بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وطیرہ دینِ حق کی حفاظت اور مقامِ توحید کی حقیقی تعبیر و تفہیم کیلئے ضروری و کارآمد ہے۔
اس موضوع پر آپ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ آپ کے سوالات کے مفصل اور مدلل جوابات مل جائیں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔